میانمار میں خفیہ فوجی عدالتوں نے بیسیوں افراد کو سزائے موت سنائی

میانمار میں گزشتہ برس ہونے والی فوجی بغاوت سے اب تک فوجی عدالتیں پس پردہ 130 سے زیادہ لوگوں کو موت کی سزا دے چکی ہیں۔ یہ بات اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ نے اس ہفتے وہاں سزاؤں کے تازہ ترین اعلان کے بعد کہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے کہا ہے کہ ''میانمار کی فوج منصفانہ قانونی کارروائی کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور غیرجانبداری کی بنیادی قانونی ضمانت سے برعکس خفیہ عدالتوں میں مقدمات چلا رہی ہے۔'' انہوں نے موت کی تمام سزاؤں کو معطل کرنے اور سزائے موت پر پابندی بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔
🇲🇲 #Myanmar: UN Human Rights Chief @volker_turk is shocked that more than 130 people have been sentenced to death, including at least seven this week, by closed-door courts since the military launched a coup last year. Trials were not conducted fairly: https://t.co/NdbsZ4Aqbm https://t.co/XzMkChw19g
UNHumanRights
بدھ کو ایک فوجی عدالت نے یونیورسٹی کے کم از کم سات طلبہ کو موت کی سزا سنائی۔
تُرک نے واضح کیا کہ ''فوجی عدالتیں بنیادی ترین جائز طریقہ کار یا منصفانہ قانونی کارروائی کی ضمانت سے برعکس کسی بھی درجے کی شفافیت قائم رکھنے میں تواتر سے ناکام رہی ہیں۔''
اسی دوران، اطلاعات کے مطابق جمعرات کو حقوق کا مطالبہ کرنے والے مزید چار نوجوانوں کو موت کی سزائیں سنائی گئیں۔
اقوام متحدہ کا دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) فی الوقت ان مقدمات پر وضاحت طلب کر رہا ہے۔
جولائی میں فوج نے چار افراد کو سزائے موت دی جو تقریباً 30 برس میں یہ سزا دیے جانے کا پہلا موقع تھا۔
جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) اور عالمی برادری کی جانب سے سزائے موت دینے سے پرہیز کے مطالبات کے باوجود ایک سابق رکن پارلیمان، ایک سیاسی کارکن اور دو دیگر افراد کو سزائے موت دے دی گئی۔
گزشتہ برس فوجی بغاوت کی مخالفت کرنے پر گرفتار ہونے والے قریباً 16,500 افراد میں سے 1,700 قیدیوں پر عبوری عدالتوں کے ذریعے خفیہ انداز میں مقدمات چلائے گئے اور سزائیں دی گئیں۔ بیشتر واقعات میں اس عدالتی کارروائی کا دورانیہ صرف چند منٹ رہا۔
ان لوگوں کو وکلا یا اپنے خاندانوں تک رسائی سے مسلسل محروم رکھا گیا اور کسی کو بری نہیں کیا گیا۔
تازہ ترین سزاؤں کے بعد یکم فروری 2021 سے سزائے موت پانے والے لوگوں کی مجموعی تعداد 139 ہو جائے گی۔
تُرک نے یاد دلایا کہ میانمار کی فوج کے اقدامات آسیان کے امن منصوبے سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اس منصوبے کو پانچ نکاتی اتفاق رائے کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں ''میانمار میں تشدد کا فوری خاتمہ'' بھی شامل ہے اور اس علاقائی اتحاد نے گزشتہ برس آسیان کانفرنس کے موقع پر اپنے اس عہد کی تجدید کی تھی وہ تشدد ختم کرانے کی کوشش کرے گا۔
کانفرنس کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد، طاقت کے غیرمتناسب استعمال اور 'انسانی حقوق کی خوفناک صورتحال' کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ میانمار میں سیاسی حالات، سلامتی، انسانی حقوق اور امدادی صورتحال ''مزید تباہی سے دوچار ہو رہی ہے۔''
انسانی حقوق کونسل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ''میانمار کی فوج حزب اختلاف کو کچلنے کے لیے موت کی سزاؤں کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے اس بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ وہ آسیان اور عالمی برادری کی جانب سے تشدد کے خاتمے اور سیاسی بات چیت کے حالات پیدا کر کے ملک کو فوج کی جانب سے پیدا کردہ انسانی حقوق کے بحران سے نکالنے کی کوششوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے۔''