انسانی کہانیاں عالمی تناظر

میانمار میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سلامتی کونسل کی قرارداد ’کمزور‘

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرین اکٹھے ہیں۔
Unsplash/Gayatri Malhotra
میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرین اکٹھے ہیں۔

میانمار میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سلامتی کونسل کی قرارداد ’کمزور‘

انسانی حقوق

میانمار کے لیے اقوام متحدہ کے مقرر کردہ انسانی حقوق کے ایک غیرجانبدار ماہر نے خبردار کیا ہے کہ اگر رکن ممالک نے ''مضبوط اور مربوط قدم'' نہ اٹھایا تو ملک میں خونریزی بدترین صورت اختیار کر جائے گی۔

میانمار میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار تھامس اینڈریوز نے دو سال قبل ملک میں فوج کی وحشیانہ کارروائیاں شروع ہونے کے بعد اس کے بارے میں سلامتی کونسل کی پہلی قرارداد کی منظوری کو ''اہم قدم'' قرار دیا ہے۔

Tweet URL

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ''اگرچہ کونسل نے قرارداد کا ایسا مسودہ تیار کیا اور اسے آگے بڑھایا جسے ویٹو نہیں کیا جا سکا لیکن ''بصد احترام'' یہ قرارداد اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔''

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ''سلامتی کونسل کے ساتویں باب میں دیے گئے اختیارات کا کوئی استعمال کیے بغیر مخصوص اقدامات کرنے کے مطالبے سے میانمار کی غیرقانونی فوج کو ملک میں یرغمال بنے 54 ملین لوگوں پر حملہ کرنے اور ان کی زندگیاں تباہ کرنے سے روکا نہیں جا سکے گا۔''

انہوں نے کہا کہ ''اس مسئلے پر عملی کارروائی کی ضرورت ہے۔''

قرارداد جس کا انتظار تھا

سلامتی کونسل کی قرارداد میں ملک میں فوج کے برسراقتدار آنے کے بعد مسلسل ہنگامی صورتحال اور میانمار کے لوگوں پر فوجی بغاوت کے ''سنگین اثرات'' کے بارے میں ''گہری تشویش'' ظاہر کی گئی ہے۔

قرارداد میں ایک امن منصوبے پر عملدرآمد کے لیے ''ٹھوس اور فوری اقدامات'' کرنے پر بھی زور دیا گیا جس پر جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) نے اتفاق کیا تھا، اور ''جمہوری اداروں اور جمہوری عمل'' کو برقرار رکھنے کے لیے کہا گیا ہے۔

اس بحران سے نمٹنے کے معاملے پر سلامتی کونسل کی رائے طویل عرصہ سے منقسم ہے جس میں چین اور روس میانمار کے خلاف سخت کارروائی کے خلاف ہیں۔ یہ دونوں ممالک اور انڈیا بدھ کو قرارداد پر ہونے والی رائے شماری میں غیرحاضر تھے جبکہ باقی 12 ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔

رائے شماری کے بعد اقوام متحدہ میں چین کے سفیر جانگ جن نے کہا کہ ان کا ملک چاہتا ہے کہ سلامتی کونسل میانمار کے بارے میں قرارداد کے بجائے ایک رسمی بیان کی منظوری دے۔ روس کے سفیر ویزلے نیبنزیا نے کہا کہ ماسکو میانمار کی صورتحال کو عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ نہیں سمجھتا اور اس مسئلے سے سلامتی کونسل کے ذریعے نہیں نمٹنا چاہیے۔

کمزور قرارداد

تھامس اینڈریوز نے کہا کہ ''غیرقانونی فوجی ٹولے کی جانب سے میانمار کے لوگوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر انسانی حقوق کی منظم طور سے سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی ذیل میں آتا ہے اور اس کے خلاف اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو مربوط اقدام کرنا چاہیے۔''

انہوں نے تسلیم کیا کہ اس قرارداد میں ہر طرح کے تشدد کے فوری خاتمے، سیاسی قیدیوں کی رہائی، انسانی امداد کی بلا روک و ٹوک رسائی اور خواتین و بچوں کے حقوق کے احترام کے مطالبات ''انتہائی اہم'' ہیں تاہم اس میں ''ان مطالبات کو پورا نہ کرنے میں ناکامی کے نتائج، پابندیوں کے نفاذ اور فوج کی جانب سے اب تک کیے گئے جرائم پر احتساب کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔''

انہوں ںے سلامتی کونسل کے رکن  ناروے، متحدہ عرب امارات، امریکہ، آئس لینڈ اور میکسیکو کے اس مطالبے کی حمایت کی کہ قرارداد کی زبان کو زیادہ سخت ہونا چاہیے۔

تاہم، اقوام متحدہ کے ماہر کا کہنا تھا کہ یہ قرارداد واضح کرتی ہے کہ اس بحران کا خاتمہ کرنے کے لیے درکار اقدامات سلامتی کونسل نہیں اٹھائے گی۔

انہوں ںے کہا کہ ''اسی لیے میانمار کے لوگوں کی مدد کے لیے سیاسی عزم رکھنے والے ممالک پر لازم ہے کہ وہ اس خونریزی کو ختم کرنے کے لیے فوری قدم اٹھائیں۔''

انہوں نے واضح کیا کہ ''اس قرارداد کو ''اس مسئلے پر عالمی برادری کی مزید بے عملی کا سبب'' نہیں بننا چاہیے۔

اس کے بجائے قرارداد کو ان ممالک کے لیے مستعدی کا ذریعہ بننا چاہیے جو محاصرے میں آئے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔

یہ ایسے ممالک کا عملی اتحاد تشکیل دینے کا وقت ہے جو میانمار کے لوگوں کی اشد ضرورت پوری کر کے ان کا ساتھ دینا چاہتے ہیں۔''

جمہوریت پسند نوجوان میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔
Unsplash/Pyae Sone Htun
جمہوریت پسند نوجوان میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔

عالمی برادری کی ناکامی

اقوام متحدہ کے ماہر نے گزشتہ مہینے سیکرٹری جنرل کے جاری کردہ اعلامیے سے اتفاق کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عالمی برادری میانمار کے معاملے میں ناکام رہی ہے۔

تھامس اینڈریوز نے کہا کہ ''اس ناکامی کا ایسی قراردادوں سے ازالہ نہیں ہو سکتا جن کے کوئی نتائج نہ نکلیں۔''

اس کے بجائے ہمیں مخصوص کارروائی کی ضرورت ہے جس میں مربوط پابندیاں، فوجی ٹولے کو لوگوں پر حملوں کے لیے مالی اعانت مہیا کرنے والے ذرائع کا خاتمہ اور اسے ہتھیاروں اور دہرے استعمال میں آںے والی ٹیکنالوجی کی فراہمی پر پابندیوں جیسے اقدامات شامل ہیں۔''

اپنے بیان کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ ''اس مقصد کے لیے سیاسی عزم درکار ہے۔''

خصوصی اطلاع کار جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے متعین کیے جاتے ہیں جن کا کام انسانی حقوق کے کسی خاص موضوع یا کسی ملک میں حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینا اور اپنی رپورٹ دینا ہے۔ ایسے ماہرین کو ان کےکام پر کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔