انسانی کہانیاں عالمی تناظر

یمن: بچوں کو بھوک سے بچانے کے لیے یونیسف کی ہنگامی اپیل

یمن کے علاقے موکھا کی عارضی پناہ گاہوں میں مقیم بچے۔
© WFP/Annabel Symington
یمن کے علاقے موکھا کی عارضی پناہ گاہوں میں مقیم بچے۔

یمن: بچوں کو بھوک سے بچانے کے لیے یونیسف کی ہنگامی اپیل

انسانی امداد

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال نے خبردار کیا ہے کہ فوری اقدامات نہ کئے گئے تو یمن میں لاکھوں لوگوں کو بھوک اور غذائی قلت کے پہلے سے کہیں زیادہ شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یمن میں آٹھ سالہ وحشیانہ جنگ کے باعث تقریباً 11 ملین بچوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے اور بہت سے خاندانوں کو سنگین نوعیت کی غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

Tweet URL

ملک میں ادارے کے نمائندے پیٹر ہاکنز نے کہا ہے کہ ''تباہ کن اور نہ ختم ہونے والی جنگ کے تقریباً ناقابل بیان اور ناقابل برداشت نتائج کے باعث یمن میں لاکھوں کمزور بچوں کی زندگیاں خطرے سے دوچار ہیں۔

یونیسف گزشتہ آٹھ برس کے دوران اور اس سے پہلے اشد ضرورت کی امداد مہیا کرتا رہا ہے لیکن پائیدار امن کے بغیر ہم بچوں اور متاثرہ خاندانوں کو اتنی ہی مدد دے سکتے ہیں۔''

دائمی ناامیدی

یمن میں انسانی بحران کا آغاز 2015 میں ہوا جب حوثی ملیشیا اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جانے والی یمن کی حکومت کے مابین جھڑپوں نے ملک کو تقسیم کر دیا جس سے لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے اور ضروری خدمات اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا۔

طویل دورانیے کی جنگ بندی اور امن کی راہ پر حالیہ پیش رفت کے باوجود یمن کے لوگوں کو بیک وقت آٹھ سالہ شدید جنگ، معاشی انہدام، شکستہ سماجی امدادی نظام اور کمزور سماجی خدمات جیسے بہت سے تباہ کن عوامل کا سامنا ہے۔

یونیسف نے کہا ہے کہ ''مارچ 2015 اور نومبر 2022 کے درمیان 2.3 ملین سے زیادہ بچے بے گھر ہوئے، 11,000 ہلاک یا بری طرح زخمی ہو گئے، 4,000 سے زیادہ بچوں کو فریقین نے جنگی مقاصد کے لیے بھرتی کیا اور تعلیمی و طبی مراکز پر 900 سے زیادہ حملے ہوئے یا انہیں غیرقانونی عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ مصدقہ اعدادوشمار ہیں تاہم اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔''

ہاکنز کا کہنا ہے کہ ''آٹھ سال کے بعد بہت سے بچے اور خاندان دائمی ناامیدی کا شکار ہیں۔'' انہوں نے حالیہ دنوں ایک خاندان سے ملاقات کی جو سات سال سے زیادہ عرصہ سے بے گھر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ایسے لوگوں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ بچوں کے چہروں میں تبدیلی آنے کے علاوہ ان کے لیے کچھ نہیں بدلا۔

بچے جنگ کو دیکھتے ہوئے ہی بڑے ہوئے ہیں اور انہیں پُرامن مستقبل کے لیے قدرے امید فراہم کرنا قطعی طور پر ضروری ہے۔''

مارچ 2015 اور نومبر 2022 کے درمیان 2.3 ملین سے زیادہ بچے بے گھر ہوئے.
© UNICEF/Moohialdin Fuad
مارچ 2015 اور نومبر 2022 کے درمیان 2.3 ملین سے زیادہ بچے بے گھر ہوئے.

'خوف نہیں، امید'

یونیسف کو 2023 میں یمن کے بچوں کو تحفظ زندگی میں مددگار انسانی امداد کی فراہمی جاری رکھنے کے لیے فوری طور پر 484 ملین ڈالر درکار ہیں۔ اگر یہ مالی وسائل موصول نہ ہوئے تو یونیسف کو اپنی ضرورت امداد کی فراہمی میں کمی لانا پڑے گی۔

ہاکنز نے کہا کہ ''یمن کے بچوں کو خوف کے بجائے امید کے ساتھ اپنے مستقبل کی جانب دیکھنے کے قابل ہونا چاہیے۔ ہم تمام فریقین سے کہتے ہیں کہ وہ یمن کے لوگوں کے لیے عہد کرنے اور ملک اور اس کی تھکی ماندہ آبادہ کو تباہی کے دھانے سے واپس لانے کے ذریعے یہ امید دینے میں ہماری مدد کریں۔ ''