انسانی کہانیاں عالمی تناظر

یمن: رمضان کی آمد پر فریقین کو جنگ میں وقفہ برقرار رکھنا چاہیے

گزشتہ برس یمن میں بھوک کا شکار لوگوں کی تعداد میں تقریباً 20 لاکھ تک کمی ہوئی ہے۔
© UNICEF/Saleh Bin Hayan YPN
گزشتہ برس یمن میں بھوک کا شکار لوگوں کی تعداد میں تقریباً 20 لاکھ تک کمی ہوئی ہے۔

یمن: رمضان کی آمد پر فریقین کو جنگ میں وقفہ برقرار رکھنا چاہیے

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ ماہ رمضان قریب آنے پر یمن میں فریقین کو ملک بھر میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات اور اشد امدادی ضروریات پوری کرنے کے لیے حالیہ امن اور اپریل 2022 سے جاری جنگ بندی کو تقویت دینی چاہیے۔

یمن میں جنگ بندی گزشتہ برس اکتوبر میں اپنی مقررہ مدت مکمل ہونے کے بعد بھی بڑی حد تک برقرار ہے۔

Tweet URL

یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ہینز گرنڈبرگ کا کہنا ہے کہ ''جنگ بندی مستقل امن کے لیے صرف ذریعہ ہی ہو سکتی ہے۔''

انہوں نے کہا کہ مسئلے کے مختصر مدتی حل اور مختصر اقدامات جزوی مدد ہی دے سکتے ہیں۔ انہوں نے جنگ کا پائیدار طور سے خاتمہ کرنے کے لیے اِس وقت جاری متعدد تازہ ترین سفارتی کوششوں کا خاکہ پیش کیا۔

'جنگ بندی برقرار ہے'

یمن میں قریباً ایک دہائی سے جاری جنگ کا آغاز 2014 میں ہوا تھا جب حوثی باغی ملیشیا نے پہلی مرتبہ ملکی دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر صنعا پر قبضہ کیا تھا۔ اس جنگ کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اور طویل انسانی بحران نے جنم لیا۔

اس بحران کو حل کرنے کے لیے سالہا سال سے جاری سفارتی کوششوں کے نتیجے میں اپریل 2022 میں ہونے والا جنگ بندی کا معاہدہ ایک بڑی کامیابی تھی جس کے ذریعے جنگ کے آغاز سے اب تک اس میں ایک طویل ترین وقفہ آیا۔ 

اگرچہ اس جنگ بندی کی طے شدہ مدت کئی مرتبہ توسیع کے بعد اکتوبر میں ختم ہو گئی تھی تاہم گرنڈبرگ نے آج کونسل کو بتایا کہ اس کے بعض اہم ترین اجزا اب بھی برقرار ہیں۔

مثال کے طور پر صنعا اور اردن کے دارالحکومت عمان کے درمیان ہفتے میں تین روز تجارتی فضائی پروازیں اب بھی جاری ہیں اور ایندھن سمیت دیگر ضروری اشیا لے جانے والے جہاز حدیدہ شہر کی بندرگاہوں میں اب بھی آ رہے ہیں۔

نمایاں سفارتی تبدیلی

خصوصی نمائندے نے اس بحران کے حوالے سے سفارتی بات چیت کی وسعت اور گہرائی میں ''نمایاں تبدیلی'' کا حوالہ دیتے ہوئے خاص طور پر سعودی عرب اور اومان کی جانب سے علاقائی سطح پر کی جانے والی کوششوں کی تعریف کی اور تمام فریقین سے کہا کہ وہ ان کوششوں کو ثمرآور بنانے کے لیے وقت اور گنجائش مہیا کریں۔

اگرچہ یمن میں مجموعی عسکری صورتحال مقابلتاً مستحکم ہے تاہم اس کے ساتھ یہ انتہائی نازک بھی ہے اور اگلے محاذ پر جھڑپوں کی تعداد اور شدت میں اضافے کی اطلاع ہیں جن میں مآرب اور طائز کی صورتحال خاص طور پر باعث تشویش ہے۔

گرنڈبرگ نے فریقین پر اس اہم وقت میں زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت جاری بات چیت میں طے پانے والے کسی بھی سمجھوتےکو فوری طور پر اقوام متحدہ کے زیراہتمام ''یمنی۔یمنی معاہدے'' کی صورت اختیار کرنا چاہیے۔

دہشت ناک ہنگامی حالات

امدادی امور سے متعلق اقوام متحدہ کی نائب رابطہ کار جوئس سویا نے بھی اس بریفنگ میں شرکت کی جنہوں نے اس امر سے اتفاق کیا کہ 2022 میں طے پانے والی جنگ بندی اور اس کی متعدد شرائط اب بھی برقرار ہیں اور اس کے نتیجے میں کئی طرح کی مثبت پیش رفت بھی دیکھنے کو ملی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس یمن میں بھوک کا شکار لوگوں کی تعداد میں تقریباً 20 لاکھ تک کمی ہوئی ہے۔

تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ یمن بدستور ایک ''دہشت ناک'' ہنگامی صورتحال سے دوچار ہے جہاں 2023 میں 17 ملین لوگ مدد اور تحفظ کے لیے امدادی اداروں پر انحصار کر رہے ہیں۔

خواتین امدادی کارکنوں پر پابندیاں

دریں اثنا، امدادی کارکنوں کو ضرورت مندوں تک رسائی کے حوالے سے رکاوٹوں کا سامنا ہے اور حوثیوں کے زیرانتظام علاقوں میں یمنی خواتین امدادی کارکن تاحال اپنے مرد سرپرستوں کے بغیر اندرون و بیرون ملک سفر نہیں کر سکتیں جس سے امدادی اداروں کی خواتین اور لڑکیوں کی محفوظ اور قابل اعتماد طور سے مدد کرنے کی صلاحیت سنگین طور سے متاثر ہو رہی ہے۔

سویا کا کہنا تھا کہ ''ہم جانتے ہیں کہ عطیہ دہندگان کی جانب سے دیے جانے والے مالی وسائل محدود ہیں اور دیگر بحرانوں میں بھی ان کی مدد درکار ہے۔''

تاہم انہوں نے ممالک پر زور دیا کہ وہ حال ہی میں جینیوا میں یمن کے لیے ہونے والی امدادی کانفرنس میں کیے گئے اپنے وعدوں کو فوری طور پر پورا کریں اور اس جنگ زدہ ملک میں اقوام متحدہ کے امدادی اقدامات کے منصوبے کے لیے درکار 4.3 بلین ڈالر کے تمام مالی وسائل مہیا کریں۔