انسانی کہانیاں عالمی تناظر

یمن خانہ جنگی میں 11,000 سے زیادہ بچے ہلاک یا زخمی ہوچکے ہیں: یونیسف

یمن کے ایک تباہ حال سکول کے کمرہ جماعت میں بچے جمع ہیں۔
© UNOCHA/Giles Clarke
یمن کے ایک تباہ حال سکول کے کمرہ جماعت میں بچے جمع ہیں۔

یمن خانہ جنگی میں 11,000 سے زیادہ بچے ہلاک یا زخمی ہوچکے ہیں: یونیسف

انسانی امداد

2015 میں شروع ہونے والی یمن کی جنگ میں روزانہ اوسطاً چار اور مجموعی طور پر 11,000 سے زیادہ کم عمر لڑکے اور لڑکیاں ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ میں بچوں کے ادارے کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

ادارے کی سربراہ کیتھرین رسل نے یمن کا دورہ مکمل کرنے کے بعد حکومت اور حوثی باغیوں کے مابین جنگ بندی کی فوری تجدید کے لیے کہا ہے۔

Tweet URL

ابتداً جنگ بندی کے اس معاہدے کا اعلان اپریل میں ہوا تھا جس کے نتیجے میں لڑائی کی شدت میں نمایاں کمی آئی۔

تاہم، یونیسف کا کہنا ہے کہ اکتوبر کے اوائل میں جنگ بندی کا عرصہ مکمل ہونے کے بعد 30 نومبر تک مزید 62 بچے ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔

بقاء کی جدوجہد

مزید برآں، کم از کم جولائی اور ستمبر کے درمیانی عرصہ میں ہی بارودی سرنگوں اور زمین پر پڑے گولہ بارود کے پھٹنے سے کم از کم 74 بچوں سمیت 164 افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔

کیتھرین رسل نے عدن شہر کے ہسپتال کا دورہ کیا جہاں وہ سات سالہ بچے یاسین اور اس کی والدہ صبا سے ملیں جن کے لیے زندگی بقا کی جدوجہد بن چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''ہزاروں بچوں کی جان چلی گئی ہے اور ہزاروں دیگر قابل علاج بیماریوں یا بھوک کے باعث موت کے دھانے پر ہیں۔ یاسین کا شمار یمن کے ان بہت سے بچوں میں ہوتا ہے جو غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ان سب کو فوری مدد درکار ہے کیونکہ بنیادی خدمات کی فراہمی کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔''

بچوں کی زندگی کو خطرہ

یمن میں انسانی حالات فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ دو کروڑ 34 لاکھ سے زیادہ لوگوں یا ملکی آبادی کے ایک تہائی حصے کو مدد اور تحفظ کی ضرورت ہے جس میں نصف سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔

یونیسف کے اندازے کے مطابق 22 لاکھ بچوں کو خوراک کی شدید کمی سامنا ہے جن میں 540,000 کی عمر پانچ سال سے کم ہے جو انتہائی شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

یمن میں ایک کروڑ 78 لاکھ لوگوں کو صاف پانی، نکاسی آب اور صحت و صفائی کی سہولیات تک رسائی میسر نہیں جبکہ ملک میں صحت کا نظام کئی سال سے انتہائی کمزور ہے۔

ملک بھر میں طبی مراکز کی صرف نصف تعداد ہی فعال ہے جس کے باعث ایک کروڑ بچوں سمیت تقریباً دو کروڑ 20 لاکھ لوگ علاج معالجے تک مناسب رسائی سے محروم ہیں۔

مائیں غذائی قلت کا شکار اپنے بچوں کو عالمی ادارہِ خوارک کے تحت کام کرنے والے ایک کلینک میں معائنہ کے لیے لائی ہوئی ہیں۔
© WFP/Albaraa Mansour
مائیں غذائی قلت کا شکار اپنے بچوں کو عالمی ادارہِ خوارک کے تحت کام کرنے والے ایک کلینک میں معائنہ کے لیے لائی ہوئی ہیں۔

تعلیم کا بحران

جنگ کے باعث بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کا سلسلہ رک گیا ہے اور ایک سال سے کم عمر کے 28 فیصد بچوں کو معمول کی ویکسین نہیں لگائی جا سکی۔

یہ صورتحال اور اس کے ساتھ صاف پانی تک رسائی میں کمی کے نتیجے میں بچے ہیضہ، خسرہ اور خناق جیسی بیماریوں کے شدید خطرے سے دوچار ہیں۔

یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ یمن کو تعلیم کے شدید بحران کا بھی سامنا ہے جس کے بچوں پر بہت بڑے طویل مدتی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

اس وقت 20 لاکھ سے زیادہ لڑکے اور لڑکیاں سکول جانے سے محروم ہیں اور یہ تعداد 60 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے کیونکہ ہر چار میں سے کم از کم ایک سکول تباہ ہو چکا ہے یا اسے جزوی نقصان پہنچا ہے۔

جنگ بندی کی تجدید کریں

کیتھرین رسل نے زور دیا کہ اگر یمن کے بچوں کو اچھے مستقبل کا کوئی موقع دینا ہے تو جنگی فریقین، عالمی برادری اور بااثر ممالک کو ان کی حفاظت اور مدد یقینی بنانا ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ ''ان میں منصور جیسے بچے بھی شامل ہیں جس سے میں یونیسف کی مدد سے بنائے گئے بحالی و مصنوعی اعضا کے مرکز میں ملی تھی۔ گولی لگنے کے باعث اس بچے کی ٹانگ گھٹنے کے قریب کاٹنا پڑی۔ کسی بچے کو ایسے حالات پیش نہیں آنے چاہئیں۔''

کیتھرین رسل کا کہنا تھا کہ ''جنگ بندی کی فوری تجدید ایسا پہلا مثبت قدم ہوگا جس سے یمن میں ضروری انسانی امداد پہنچانے میں مدد ملے گی۔ بالآخر پائیدار امن کی بدولت ہی خاندان اپنی بکھری زندگیوں کی تعمیرنو اور مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکیں گے۔''

غذائی قلت کا شکار بچوں کی دیکھ بھال کے لیے قائم ہسپتال میں ایک بچی مونگ پھلی سے بنی پیسٹ کھا رہی ہے۔
© UNICEF/Mohammed Huwais
غذائی قلت کا شکار بچوں کی دیکھ بھال کے لیے قائم ہسپتال میں ایک بچی مونگ پھلی سے بنی پیسٹ کھا رہی ہے۔

مالی وسائل فراہم کرنے کی اپیل

یونیسف 2023 میں یمن کے بحران سے نمٹنے کے لیے قریباً  48 کروڑ 45 لاکھ ڈالر کے حصول کی کوشش کر رہا ہے اور اس نے خبردار کیا ہے کہ درکار وسائل کی کمی کے نتیجے میں بچوں کی زندگی اور ان کی بہبود خطرے میں پڑ جائے گی۔

مسائل کے باوجود ادارے نے اس سال یمن میں بچوں کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں جن میں 260,000 سے زیادہ بچوں کو شدید غذائی قلت کے خلاف مدد کی فراہمی بھی شامل ہے۔

قریباً 1.5 ملین گھرانوں کو ہر سہ ماہی میں ہنگامی مدد کے طور پر نقد رقم دی گئی جس سے تقریباً 90 لاکھ لوگوں کوفائدہ ہوا۔

یونیسف نے ٹرکوں کے ذریعے، نلکوں کی تنصیب اور پانی کی فراہمی کو اندرون ملک بے گھر لوگوں کی کیمپوں تک وسعت دے کر یمن کے قریباً 47 لاکھ لوگوں کو پینے کے پانی کی محفوظ و مسلسل فراہمی ممکن بنائی ہے۔

دیگر اقدامات میں کم از کم 16 لاکھ بچوں کو خسرے اور پولیو کی ویکسین لگانا اور 24 ہستپالوں میں زچہ بچہ اور نو عمر بچوں کے لیے علاج معالجے اور طبی سازوسامان کی فراہمی میں مدد دینا بھی شامل ہے۔