انسانی کہانیاں عالمی تناظر

یمن میں امدادی سرگرمیوں کے لیے 4.3 ارب ڈالر کی اپیل

یمن کے 21 ملین سے زیادہ لوگوں یا دو تہائی آبادی کو تاحال مدد اور تحفظ درکار ہے۔
© UNHCR/Ahmed Al-Mayadeen
یمن کے 21 ملین سے زیادہ لوگوں یا دو تہائی آبادی کو تاحال مدد اور تحفظ درکار ہے۔

یمن میں امدادی سرگرمیوں کے لیے 4.3 ارب ڈالر کی اپیل

انسانی امداد

عطیہ دہندگان جنگ زدہ یمن میں 17.3 ملین لوگوں کو مدد اور تحفظ مہیا کرنے کے کی غرض سے 4.3 بلین ڈالر جمع کرنے کے لیے سوموار کو جینیوا میں اجلاس کر رہے ہیں۔ یمن کو اس وقت دنیا میں سب سے بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے۔

یمن میں گزشتہ برس چھ ماہ کی جنگ بندی کے باوجود بڑی حد تک بگڑتی ہوئی معیشت اور بنیادی خدمات کے خاتمے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر لوگوں کی تکالیف برقرار ہیں۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ سالہا سال تک اموات، بے گھری، تباہی، بھوک اور تکالیف کا سامنا کرنے والے لوگوں کو جنگ بندی نے ''حقیقی فوائد پہنچائے''۔

مالی وسائل اور وعدے

تاہم امدادی ضروریات بڑھتی جا رہی ہیں کیونکہ یمن کے 21 ملین سے زیادہ لوگوں یا دو تہائی آبادی کو تاحال مدد اور تحفظ درکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''امدادی برادری کے پاس اس بحران کو ختم کرنے کی طاقت اور ذرائع موجود ہیں۔ اس کا آغاز امداد کے لیے ہماری اپیل پر مطلوبہ مالی وسائل کی فراہمی اور انہیں فوری طور پر تقسیم کرنے کے عہد سے ہوتا ہے۔''

یمن کے لوگوں نے تقریباً آٹھ سال تک سعودی عرب کی پشت پناہی میں حکومتی افوج اور ان کے مخالف حوثی باغیوں کے مابین جنگ کے نتائج جھیلے ہیں۔ شدید خشک سالی اور سیلاب بھی لوگوں کی زندگیوں، تحفظ اور بہبود کے لیے خطرہ ہیں۔

مزید برآں، اگرچہ مقامی لوگوں پر بہت زیادہ بوجھ ہےتاہم یمن دوسرے جنگ زدہ ممالک خصوصاً صومالیہ اور ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے تقریباً 100,000 پناہ گزینوں اور پناہ کے خواہش مند لوگوں کی میزبانی کر رہا ہے۔

'ناپائیدار' فوائد کو خطرہ

گزشہ برس امدادی اداروں نے 2.2 بلین ڈالر کی امداد جمع کی جس سے انہیں ہر ماہ تقریباً 11 ملین لوگوں کو خوراک، پانی، پناہ، تعلیم اور تحفظ زندگی کے لیے درکار دیگر مدد کی فراہمی ممکن ہوئی۔

انتونیو گوتیرش نے کہا کہ جنگ بندی اور دیگر مثبت عوامل کی بدولت شدید بھوک کا سامنا کرنے والے یمنیوں کی تعداد ماضی کے مقابلے میں دو ملین کم رہی جبکہ قحط جیسے حالات سے متاثرہ لوگوں کی تعداد 150,000 سے کم ہو کر فی الواقع صفر ہو گئی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ''یہ فوائد ناپائیدار ہیں۔ اگر اس وقت مدد بند ہو جائے تو امدادی اداروں کو اپنے پروگرام محدود یا معطل کرنا پڑیں گے جس کی خوفناک انسانی قیمت ادا کرنا ہو گی۔''

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش یمن میں امدادی سرگرمیوں پر پونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔
UN Photo/ Jean Marc Ferré
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش یمن میں امدادی سرگرمیوں پر پونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔

امدادی کارکنوں پر حملے

انہوں نے امداد کی فراہمی میں افسرشاہی کی رکاوٹوں، مداخلت اور خاص طور پر حوثیوں کے زیرقبضہ علاقوں میں نقل و حمل میں حائل مشکلات کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ امدادی کارکنوں کو مدد کے علاوہ تمام ضرورت مند لوگوں تک محفوظ رسائی دکار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''اس سے بھی بدترین بات یہ ہے کہ امدادی کارکن خود بھی حملوں کی زد میں آ رہے ہیں۔

میں تنازعے کے تمام فریقین سے کہتا ہوں کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے تمام ضرورت مند لوگوں تک امداد کی محفوظ، تیزرفتار اور بلا رکاوٹ رسائی میں سہولت دیں۔''

امن اہم ہے

اقوام متحدہ میں امدادی امور اور ہنگامی امداد سے متعلق رابطہ کار مارٹن گرفتھس کا کہنا ہے کہ دنیا ایک مرتبہ پھر یمن کو بحران سے نکلنے میں مدد دینے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''اس کا مطلب امن کی راہ تلاش کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھنا بلکہ انہیں بڑھانا ہے۔ اس کا مطلب امدادی کارروائیوں کے لیے مالی وسائل جاری کرنا ہے تاکہ تحفظ زندگی کے پروگراموں کے ذریعے حالات کو بدترین صورت اختیار کرنے سے روکا جا سکے۔ اس کا مطلب امدای اداروں کی مدد کرنا بھی ہے جو ملک بھر میں بنیادی ضرورت کے امدادی اقدامات کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سویڈن اور سوئزر لینڈ کی حکومتیں امدادی وعدوں کے لیے ہونے والی اس کانفرنس کے میزبان ہیں۔