انسانی کہانیاں عالمی تناظر

امدادی ادارے افغانستان میں خواتین کے کردار پر رہنمائی کے منتظر

این جی او ’کیئر‘ کی سیکرٹری جنرل صوفیہ سپریچمین سنیرو اپنے حالیہ دورہ افغانستان کے تجربات بارے بتا رہی ہیں۔
UN Photo/Loey Felipe
این جی او ’کیئر‘ کی سیکرٹری جنرل صوفیہ سپریچمین سنیرو اپنے حالیہ دورہ افغانستان کے تجربات بارے بتا رہی ہیں۔

امدادی ادارے افغانستان میں خواتین کے کردار پر رہنمائی کے منتظر

خواتین

اقوام متحدہ کے زیرقیادت امداد دہندگان کے ایک گروپ نے امید ظاہر کی ہے کہ طالبان افغان خواتین کو ایک مرتبہ پھر غیرسرکاری اداروں (این جی اوز) کے ساتھ کام کی اجازت دیں گے جس پر گزشتہ مہینے پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

امدادی رابطہ کاری سے متعلق اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم 'بین الاداری قائمہ کمیٹی' (آئی اے ایس سی) کی نمائندگی کرنے والے چار اعلیٰ سطحی حکام نے نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں دنیا کی سب سے بڑی امدادی کارروائی عملے کی خواتین ارکان کے بغیر انجام نہیں پا سکتی۔ اس کارروائی میں ملک کے قریباً 28 ملین لوگوں کو مدد دی جاری ہے۔

Tweet URL

ان حکام نے 24 دسمبر کو خواتین کے مقامی اور بین الاقوامی امدادی اداروں کے ساتھ کام کرنے پر پابندی کا حکم جاری ہونے کے بعد گزشتہ ہفتے افغانستان میں اپنے مشن کے بارے میں اطلاع دی۔

اس سے چند روز کے بعد ملک کے طالبان حکمرانوں نے خواتین کو صحت کے شعبے میں سرگرم این جی اوز کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

تعلیم کے شعبے میں بھی خواتین کو ایسا ہی استثنیٰ دیا گیا تاہم اس کا تعلق ابتدائی درجے کی تعلیم سے ہے اور خواتین پر ثانوی سکول اور یونیورسٹی میں جانے پر بدستور پابندی عائد ہے۔

واضح پیغام

'آئی اے ایس ای' کی ٹیم نے طالبان کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں اس پابندی کی مخالف کی جس کے بارے میں انہیں امید ہے کہ اسے واپس لے لیا جائے گا اور امدادی اقدامات کے تمام پہلوؤں میں خواتین کو پابندی اسے استثنیٰ دینے کے لیے کہا۔

اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے سربراہ اور'آئی اے ایس سی' کے چیئرمین نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرس کرتے ہوئے کہا کہ دورے میں ہونے والی ملاقاتوں میں انہیں بتایا گیا کہ اس بارے میں رہنما ہدایات تیار کی جار رہی ہیں اور وہ اطمینان رکھیں۔

مارٹن گرفتھس کا کہنا تھا کہ ''میں ایسا شخص ہوں جو بہت زیادہ قیاس آرئی نہیں کرتا کیونکہ یہ قیاس آرائی کا معاملہ ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا یہ رہنما ہدایات دی جاتی ہیں یا نہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ مفید ہیں یا نہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہماری امدادی کارروائیوں میں خواتین کے ضروری اور بنیادی کردار کی کتنی گنجائش ہے۔''

انہوں نے کہا کہ ''اس بارے میں ہر ایک کی اپنی رائے ہے کہ آیا یہ ہدایات کارآمد ہوں گی یا نہیں۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ طالبان کو واضح پیغام دیا جا چکا ہے کہ خواتین کے پاس ان کے حقوق ہونا ہی اہم نہیں بلکہ امدادی شعبے میں وہ مرکزی اور لازمی اہمیت حیثیت رکھتی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ کام پر واپس آئیں۔''

خواتین کا اہم کردار

امدادی اداروں کو اس سال افغانستان میں اپنی کارروائیوں کے لیے 4.6 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔

تین سال سے خشک سالی جیسے حالات، معاشی تنزل اور چار دہائیوں پر مشتمل جنگ کے اثرات نے افغانستان کی تقریباً دو تہائی آبادی یعنی 28 ملین لوگوں کو امداد کا محتاج بنا دیا ہے جبکہ چھ ملین افراد قحط کے دھانے پر ہیں۔

'سیو دی چلڈرن' کی صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر جانتی سوئرپٹو کے مطابق افغانستان میں این جی اوز کے لیے کام کرنے والے 55 ہزار مقامی لوگوں میں خواتین کی تعداد 30 فیصد ہے

ان کا کہنا ہے کہ ''اپنی ٹیموں میں خواتین کے بغیر ہم لاکھوں کی تعداد میں بچوں اور خواتین کو امدادی خدمات مہیا نہیں کر سکتے۔''

انہوں نے کہا کہ ''خواتین کے بغیر ہم لوگوں کی ضروریات کی نشاندہی نہیں کر سکیں گے، گھرانوں کی خواتین سربراہوں سے بات نہیں کر پائیں گے جو افغانستا میں سالہا سال کی جنگ کے بعد اب بہت بڑی تعداد میں ہیں اور ان کے ساتھ محفوظ اور ثقافتی اعتبار سے مناسب انداز میں بات نہیں ہو سکے گی۔''

لڑکیوں کو ثانوی سکول کی تعلیم کے حصول سے روکنے کے حکم کے باعث دس لاکھ سے زیادہ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہو گئی ہیں۔
UNAMA/Farzana Zeba Kalam
لڑکیوں کو ثانوی سکول کی تعلیم کے حصول سے روکنے کے حکم کے باعث دس لاکھ سے زیادہ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہو گئی ہیں۔

'زندگیوں کو خطرہ ہے'

مزید برآں، بہت سی خواتین امدادی کارکن اپنے خاندانوں کا واحد معاشی سہارا ہیں اور ان پر پابندی کا مطلب یہ ہے کہ مزید بہت سے گھرانے آمدنی سے محروم ہوجائیں گے۔

سوئرپٹو نے کہا کہ ''ہم نے طالبان پر اچھی طرح واضح کر دیا ہے کہ انسانی امداد مشروط نہیں ہونی چاہیے اور اس میں کسی طرح کا امتیازی سلوک نہیں برتا جا سکتا۔ ہمیں امداد کو سیاست زدہ نہیں کرنا، ہم اپنی سرگرمیوں کے کسی بھی پہلو میں خواتین کے بغیر یہ کام نہیں کر سکتے۔''

ان قابل قدر کارکنوں کا نقصان ایسے وقت میں ہوا ہے جب افغانستان 15 سال میں شدید ترین سرد موسم کی لپیٹ میں ہے اور درجہ حرارت منفی 30 ڈگری سیلسیئس سے بھی نیچے جا چکا ہے جس کے باعث بہت سی اموات ہو رہی ہیں۔

'آئی اے ایس سی' کے مشن نے دارالحکومت کابل کے نواح میں ایک کلینک کا دورہ کیا جو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اور ایک مقامی شراکت دار مل کر چلاتے ہیں۔

خدمات کی بحالی

'کیئر انٹرنیشنل' کی سیکرٹری جنرل صوفیہ سپریچمین سنیرو نے بتایا ہے کہ خواتین عملے کی واپسی کے بعد یہ کلینک دوبارہ کام شروع کر چکا ہے اور وہاں صحت اور غذائیت کے حوالے سے اہم خدمات کی فراہمی جاری ہے۔

کلینک کے عملے نے خوفناک اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ امداد کے طلبگار 15 فیصد بچوں کو شدید غذائی قلت کے باعث طبی مسائل کا سامنا ہے۔

کابل سے بات کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ ''اسی لیے کوئی ابہام نہیں رہنا چاہیے۔ خواتین کو دوسری خواتین کے لیے تحفظِ زندگی میں مددگار امداد کی فراہمی سے روک کر این جی اوز کے ہاتھ باندھنے سے زندگیوں کو نقصان ہو گا۔''

افغانستان کے حکمرانوں کے ساتھ ملاقاتوں میں امدادی سربراہان نے ملک میں عوامی زندگی میں لڑکیوں اور خواتین کی مکمل شمولیت پر بھی زور دیا۔

تعلیم کا بھاری نقصان

لڑکیوں کو ثانوی سکول کی تعلیم کے حصول سے روکنے کے حکم کے باعث دس لاکھ سے زیادہ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہو گئی ہیں جس سےکووڈ۔19 وبا کے دوران ہونے والے نقصانات مزید بڑھ گئے ہیں۔

یونیسف کے ڈپٹی ڈائریکٹر پروگرامز عمر عابدی کے مطابق خواتین کو یونیورسٹی کی تعلیم کے حصول سے روکنے کے لیے گزشتہ مہینے جاری کردہ حکم نے ان کی امیدوں کو مزید کچل دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''ہمیں لڑکیوں اور خواتین کی ترقی اور خاص طور پر ان کی ذہنی صحت کے حوالے سے بے حد تشویش ہے۔ 2023 میں اگر ثانوی سکول لڑکیوں کے لیے بند رہے تو گزشتہ سال چھٹے درجے تک تعلیم حاصل کرنے والی اندازاً 215,000 لڑکیاں ایک مرتبہ پھر سیکھنے کے حق سے محروم رہیں گی۔''

عمر عابدی نے تاریک منظرنامے کے باوجود بعض مثبت علامات کی نشاندہی بھی کی۔

پُرامید صورتحال

اس پابندی کے بعد اب تک 12 صوبوں میں قریباً 200,000 لڑکیاں بدستور ثانوی سکولوں میں تعلیم پا رہی ہیں اور ان سکولوں کی خواتین اساتذہ کو تنخواہوں کی فراہمی بھی جاری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کابل میں ہماری جن حکام سے بات ہوئی انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ لڑکیوں کے ثانوی سکول کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں اور اپنے رہنماؤں کی جانب سے ہدایات کی مںظوری ملنے کے بعد سکولوں کو دوبارہ کھولنے کا وعدہ کیا۔

گھروں میں اور دیگر جگہوں پر مقامی بنیاد پر تعلیمی کلاسوں کی تعداد گزشتہ سال دو گنا بڑھ کر 20,000 تک جا پہنچی ہے اور اس طرح قریباً 600,000 بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں نصف سے زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے۔

عمر عابدی کا کہنا تھا کہ ''یہ مثبت علامات افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے وعدوں اور مقامی لوگوں کی جانب سے تعلیمی اداروں اور مقامی سطح پر قائم کردہ سکولوں کو کھلا رکھنے کے لیے عائد کردہ دباؤ کا نتیجہ ہیں۔''

انہوں نے کہا کہ ''جب تک مقامی لوگ تعلیم کا مطالبہ کرتے رہیں گے اس وقت تک ہمیں سرکاری اور دیگر طرح کی تعلیم، مقامی بنیادوں پر تدریس، ادھورے تعلیمی سلسلے کو مکمل کرانے کا اہتمام اور پیش وارانہ تربیت جاری رکھنا ہو گی۔''