انسانی کہانیاں عالمی تناظر

طالبان کے خواتین پر مظالم انسانیت کے خلاف جرائم شمار ہو سکتے ہیں

افغانستان میں لڑکیاں ثانوی تعلیم سے محروم ہیں جبکہ خواتین کو بھی پارکوں، ورزش گاہوں اور دیگر عوامی مقامات پر جانے سے روک دیا گیا ہے۔
© UNICEF/Shehzad Noorani
افغانستان میں لڑکیاں ثانوی تعلیم سے محروم ہیں جبکہ خواتین کو بھی پارکوں، ورزش گاہوں اور دیگر عوامی مقامات پر جانے سے روک دیا گیا ہے۔

طالبان کے خواتین پر مظالم انسانیت کے خلاف جرائم شمار ہو سکتے ہیں

انسانی حقوق

انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے متعین کردہ گیارہ غیرجانبدار ماہرین نے کہا ہے کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف طالبان حکام کی تازہ ترین کارروائیوں کی ''صنفی بنیاد پر مظالم کے طور پر تحقیقات ہونی چاہئیں۔''

ماہرین کا کہنا ہے کہ ''افغانستان میں پہلے ہی خواتین کے حقوق کی صورتحال دنیا میں سب سے زیادہ ناگوار اور ناقابل قبول ہے اور حالیہ مہینوں میں وہاں خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کی پامالیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔''

Tweet URL

ان خصوصی اطلاع کاروں نے طالبان پر خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی اقدامات واپس لینے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ صںفی بنیاد پر ظلم ڈھانا انسانیت کے خلاف جرم ہے جس پر بین الاقوامی قانون کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔

قیدیوں جیسی زندگی

افغانستان میں لڑکیاں ثانوی تعلیم سے محروم ہیں جبکہ خواتین کو بھی پارکوں، ورزش گاہوں اور دیگر عوامی مقامات پر جانے سے روک دیا گیا ہے اور حالیہ دنوں کم از کم ایک علاقے میں انہیں یونیورسٹی میں داخلے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔

ماہرین نے کہا ہے کہ ''خواتین کو پارکوں میں جانے کی اجازت نہ ملنے سے ان کے بچے بھی کھیل کود اور ورزش کے مواقع اور تفریحی سرگرمیوں میں شمولیت کے حق سے محروم رہتے ہیں۔''

''خواتین کو گھروں تک محدود رکھنا انہیں قید کرنے کے مترادف ہے اور اس کا نتیجہ گھریلو تشدد اور ذہنی صحت کے مسائل میں اضافے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔''

اسی دوران طالبان حکام رنگا رنگ ملبوسات پہننے والی یا پردہ نہ کرنے والی خواتین کے ساتھی مردوں کو بے دردی سے مار پیٹ رہے ہیں۔

مزید برآں، وہ خواتین کی مفروضہ سرکشی کے لیے ان کے مرد رشتہ داروں کو سزا دے کر خواتین اور لڑکیوں کی خود اختیاری کو ختم رہے ہیں اور مردوں کو اپنے دائرہ کار میں خواتین اور لڑکیوں کے رویے، لباس اور نقل و حرکت کو اپنے زیراثر رکھنے کی ترغیب دے کر ایک صنف کو دوسری کے خلاف کھڑا کر رہے ہیں۔

بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ ''ہمیں اس بات پر گہری تشویش ہے کہ ایسے اقدامات کا مقصد مردوں اور لڑکوں کو ایسی خواتین اور لڑکیوں کو سزا دینے پر مجبور کرنا ہے جو طالبان کی جانب سے خواتین مخالف اقدامات کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں اس طرح طالبان خواتین کو ان کے حقوق سے مزید محروم کرنا اور ان کے خلاف تشدد کو معمول بنانا چاہتے ہیں۔''

حقوق کے محافظوں کا دفاع

خواتین پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کے خلاف پُرامن احتجاج کرنے والے خواتین کے حقوق کے محافظوں کو کئی مہینوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انہیں مارنے پیٹنے اور گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

3 نومبر کو طالبان حکام نے ایک پریس کانفرنس میں خلل ڈالا اور اس کے شرکا کو گرفتار کر لیا جن میں ظریفہ یعقوبی نامی خاتون بھی شامل تھیں جو چار مردوں کے ساتھ بدستور طالبان کے محکمہ انٹیلی جنس کی قید میں ہیں۔

ماہرین نے انسانی حقوق کے گرفتار محافظوں کی خیریت کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے اور طالبان سے کہا ہے کہ ''اپنے بنیادی حقوق سے کام لینے پر لوگوں گرفتار کرنا غیرقانونی ہے اور یہ عمل ناجائز گرفتاری کی ذیل میں آتا ہے۔''

طالبان سے مطالبہ

اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کاروں نے افغانستان کے موجودہ حکمرانوں سے کہا ہے کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق اپنی تمام بین الاقوامی ذمہ داریوں اور وعدوں کو پورا کریں اور انسانی حقوق کے تمام معیارات پر مکمل عملدرآمد کریں جن میں تعلیم، روزگار اور عوامی و ثقافتی سرگرمیوں میں شرکت سے متعلق تمام لڑکیوں اور خواتین کے حقوق بھی شامل ہیں۔

ماہرین نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ ظریفہ یعقوبی اور ان کے ساتھ حراست میں لیے جانے والے مردوں کو ''فوری اور غیرمشروط طور پر رہا کیا جائے'' یا طالبان ان کی گرفتاری کی وجوہات عوامی سطح پر بیان کریں اور گرفتار ہونے والوں کے اہلخانہ اور وکلاء کو ان سے رابطہ کرنے کی اجازت دیں۔

طالبان سے یہ مطالبات بھی کیے گئے ہیں کہ وہ لوگوں کے دھمکیوں اور حملوں کے خوف کے بغیر اجتماع کے بنیادی حقوق کا احترام کریں، خواتین اور لڑکیوں کی مفروضہ سرکشی پر ان کے خاندان کے مردوں کو دی جانے والی سزاؤں اور احکامات کو واپس لیں، لڑکیوں کے تمام ثانوی سکول کھولیں اور ان کی یونیورسٹی میں تعلیم تک رسائی کو ممکن بنائیں اور ان کی عوامی مقامات تک رسائی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کریں۔

ماہرین نے کہا ہے کہ کہ افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے ساتھ  مذاکرات میں خواتین پر پابندیاں واپس لینے اور ان کے حقوق کا احترام  یقینی بنانے کا مطالبہ شامل ہونا چاہیے۔
IOM 2021/Paula Bonstein
ماہرین نے کہا ہے کہ کہ افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات میں خواتین پر پابندیاں واپس لینے اور ان کے حقوق کا احترام یقینی بنانے کا مطالبہ شامل ہونا چاہیے۔

بین الاقوامی اقدامات کی ضرورت

دریں اثنا، ماہرین نے عالمی برادری سے بھی کہا ہے کہ وہ افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ہر طرح کی بات چیت میں خواتین پر پابندیاں واپس لینے اور ان کے حقوق کا احترام اور تحفظ یقینی بنانے کا مطالبہ کرے۔

علاوہ ازیں عالمی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ صنفی مظالم کے ذمہ داروں کے خلاف تحقیقات اور قانونی کارروائی کے لیے مناسب عالمی اور ماورائے علاقہ دائرہ کار میں اقدامات اٹھائیں، افغانستان میں انسانی حقوق کے محافظوں خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کی مدد میں اضافہ کریں اور فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی شمولیت کے لیے محفوظ پلیٹ فارم فراہم کریں اور انہیں ترقی دیں۔

ماہرین کے بارے میں

یہ بیان جاری کرنے والے ماہرین کے نام معلوم کرنے کے لیے یہاں کلِک کیجیے۔

خصوصی اطلاع کار اور غیر جانبدار ماہرین جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے انسانی حقوق کے مخصوص موضوعات یا کسی ملک میں حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے اور اس بارے میں رپورٹ دینے کے لیے متعین کیے جاتے ہیں۔ یہ عہدے اعزازی ہیں اور اس کام کے عوض اطلاع کاروں اور ماہرین کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔