خواتین کی تعلیم پر طالبان کی پابندیاں عالمی قوانین کی ’کُھلی خلاف ورزی‘

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے کمشنر وولکر ترک نے افغانستان کے طالبان حکمرانوں کی طرف سے خواتین پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کرنے کے فیصلے کو انتہائی افسوسناک قرار دیا ہے۔
بدھ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں وولکر ترک نے افغانستان میں خواتین کے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی کے فیصلے کی اطلاع کو افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر ایک اور خوفناک اور ظالمانہ وار قرار دیتے ہوئے اسے پورے ملک کے لیے شدید دھچکا بتایا ہے۔
#Afghanistan: Banning women from attending university is another appalling and cruel blow to the rights of Afghan women & girls, and a deeply regrettable setback – @volker_turk calls for the decision to be reversed for the sake of all Afghan society: https://t.co/gfwLdrUrvA https://t.co/lKepnmsyHN
UNHumanRights
ان کا کہنا ہے کہ فی الواقع زندگی کے تمام پہلوؤں سے خواتین اور لڑکیوں کے باقاعدہ اخراج کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ "خواتین کو اعلیٰ درجے تعلیم سے خارج رکھنا اس وجہ سے اور بھی دل شکن ہے کہ افغان خواتین نے سالہا سال سے بہت سے پیشہ وارانہ اور فنی شعبوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔"
ہائی کمشنر نے ثانوی اور اعلیٰ درجے کی تعلیم میں خواتین کی شرکت معطل کرنے کے عمل کو بین الاقوامی قانون کے تحت افغانستان کی ذمہ داریوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین اور لڑکیاں کسی تفریق کے بغیر ہر درجے کی تعلیم تک رسائی کا بنیادی اور ناقابل اعتراض حق رکھتی ہیں۔
" ذرا موجودہ اور مستقبل کی تمام خواتین ڈاکٹروں، وکلا اور اساتذہ کے بارے میں سوچیے جو لڑکیوں کے ثانوی تعلیم حاصل کرنے پر پابندی کے بعد ملک کی ترقی کے لیے دستیاب نہیں ہوں گی۔"
انہوں نے افغانستان کے طالبان حکمرانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم پر لگائی گئی پابندیوں کے فیصلے کو فوری طور پر واپس لیں اور ہر درجے کی تعلیم تک رسائی کے ان کے حق کا پورا احترام کریں اور انہیں اس میں سہولت فراہم کریں۔ وولکر ترک نے زور دے کر کہا کہ ایسا کرنا ناصرف ان خواتین اور لڑکیوں بلکہ پورے افغان معاشرے کے لیے بھی ضروری ہے۔
خواتین کو یونیورسٹی کی تعلیم سے روکنا طالبان کی باقاعدہ امتیازی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔
اگست 2021 سے اب تک وہ لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی عائد کر چکے ہیں، انہوں نے خواتین اور لڑکیوں کی نقل وحرکت کی آزادی کو محدود کیا ہے، خواتین کو بیشتر افرادی قوت سے خارج رکھا ہے اور ان کے پارکوں، ورزش گاہوں، اور عوامی حماموں میں جانے پر پابندی لگائی ہے۔
'یو این اے ایم اے' کے مطابق ''ان پابندیوں کے ذریعے افغان خواتین اور لڑکیوں کو ان کے گھروں کی چاردیواری میں بند کر دیا گیا ہے۔
نصف آبادی کو معاشرے اور معیشت میں بامعنی کردار ادا کرنے سے روکنے کے پورے ملک پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔''
'یو این اے ایم اے' نے یاد دلایا کہ ایسے اقدامات افغانستان کو عالمی سطح پر مزید تنہا کر دیں گے، اسے معاشی مشکلات اور مصائب کا شکار کریں گے جن سے ''آںے والے برسوں میں لاکھوں لوگ متاثر ہوں گے۔''
مشن واضح کیا کہ ''اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ خواتین کو کام کرنے سے روکنے کا نتیجہ قریباً ایک ارب ڈالر کے معاشی نقصان کی صورت میں نکلے گا جو کہ ملک کے جی ڈی پی کا تقریباً پانچ فیصد بنتا ہے۔ لڑکیوں اور خواتین اساتذہ اور پروفیسروں کو یونیورسٹیوں میں جانے سے روکنے کے نتیجے معیشت کو اضافی نقصان ہو گا۔
اقوام متحدہ کے مشن کا کہنا تھا کہ تعلیم ایک بنیادی انسانی حق ہے، خواتین کو تعلیم سے روکنا ناصرف ان کے اس حق سے انکار ہے بلکہ اس طرح بحیثیت مجموعی افغان معاشرہ ان کے کردار سے حاصل ہونے والے فوائد سے محروم رہے گا۔''