انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سرکاری تعلیمی اداروں میں غریب طلباء نظر انداز: یونیسف

انڈیا کے علاقے گجرات میں ایک بچی گھر پر تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
A young girl studies at home in Gujarat, India.
انڈیا کے علاقے گجرات میں ایک بچی گھر پر تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

سرکاری تعلیمی اداروں میں غریب طلباء نظر انداز: یونیسف

ثقافت اور تعلیم

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے ایک رپورٹ میں ''خواندگی کی غربت'' سے نمٹنے کے لیے مساوی مالی وسائل کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتیں ایسے بچوں پر زیادہ خرچ نہیں کر رہیں جنہیں تعلیم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

102 ممالک سے حاصل ہونے والی معلومات کے جائزے پر مبنی یونیسف کی رپورٹ کے مطابق غریب ترین گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں میں سرکاری تعلیم کے لیے مہیا کیے جانے والے قومی وسائل سے استفادے کے شرح سب سے کم ہے۔

Tweet URL

فی الوقت غریب ترین 20 فیصد طلبہ تعلیم کے لیے مختص کیے جانے والے سرکاری مالی وسائل کے  صرف 16 فیصد سے مستفید ہو رہے ہیں جبکہ امیر ترین طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو 28 فیصد وسائل میسر ہیں۔

کم آمدنی والے ممالک میں یہ تناسب بالترتیب 11 فیصد اور 42 فیصد ہے۔

بچوں کا نقصان

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرائن رسل نے کہا ہے کہ ''ہم بچوں کو ناکامی سے دوچار کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں بہت سے تعلیمی نظام ایسے بچوں پر بہت کم سرمایہ خرچ کر رہے ہیں جنہیں تعلیم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔''

انہوں نے مزید کہا کہ ''غریب ترین بچوں کی تعلیم پر وسائل خرچ کرنا بچوں، معاشروں اور ممالک کا بہتر مستقبل یقیی بنانے کا آسان اور سستا ترین طریقہ ہے۔ ہر جگہ اور ہر بچے پر وسائل خرچ کر کے ہی حقیقی پیش رفت ممکن ہے۔''

''مساوی مالی وسائل کے ذریعے تعلیم میں تبدیلی'' کے عنوان سے یہ رپورٹ قبل از ابتدائی درجے سے اعلیٰ ثانوی درجے تک کی تعلیم پر خرچ کیے جانے والے سرکاری وسائل کا جائزہ لیتی ہے۔

تھوڑا خرچ، بڑا منافع

غریب ترین طلبہ کے لیے مختص سرکاری تعلیمی وسائل میں صرف ایک فیصد اضافہ ہی پرائمری سکول میں جانے کی عمر کے 35 ملین بچوں کو اس حالت سے نکال سکتا ہے جسے یونیسیف نے "خواندگی کی غربت" کہا ہے۔

دنیا بھر میں سرکاری تعلیم پر خرچ کیے جانے والے وسائل کا امیر گھرانوں کے طلبہ تک پہنچنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اور اس بات کا کم اور متوسط آمدنی والے ممالک پر یکساں طور سے اطلاق ہوتا ہے۔

یوگنڈا کا ایک سکول جو کووڈ۔19 وباء کے وقت سے بند پڑا۔
© UNICEF/Zahara Abdul
یوگنڈا کا ایک سکول جو کووڈ۔19 وباء کے وقت سے بند پڑا۔

اخراجات میں فرق

یونیسف نے کہا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک میں یہ فرق زیادہ واضح ہے۔ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امیر ترین گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچے غریب ترین گھرانوں کے بچوں کی نسبت سرکاری تعلیمی وسائل سے چھ گنا سے بھی زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔

آئیوری کوسٹ اور سینیگال جیسے متوسط آمدنی والے ممالک میں امیر ترین طلبہ پر خرچ ہونے والے سرکاری تعلیمی اخراجات کی شرح غریب ترین طلبہ کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔

دریں اثنا، اعلیٰ آمدنی والے ممالک میں امیر اور غریب ترین طلبہ پر خرچ ہونے والے سرکاری تعلیمی وسائل میں فرق کم یا 1.6 فیصد تک ہے اور فرانس اور یوروگوئے جیسے ممالک اس فرق کے اونچے سرے پر آتے ہیں۔

ناقص تعلیم

رپورٹ کے مطابق غربت میں رہنے والے بچوں کی سکول تک رسائی کا امکان کم ہوتا ہے اور وہ جلد سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ اعلیٰ سطح کی تعلیم میں بھی ان کی تعداد کم ہوتی ہے جسے فی کس سب سے بڑی شرح سے سرکاری تعلیمی اخراجات موصول ہوتے ہیں۔

ایسے بچوں میں زیادہ تعداد ان کی ہو سکتی ہے جو دور دراز اور دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جو عام طور پر پسماندہ ہوتے ہیں۔

یونیسف نے کہا ہے کہ کووڈ۔19 وبا سے پہلے بھی دنیا بھر میں تعلیمی نظام بڑی حد تک بچوں کے لیے نقصان دہ تھے اور سینکڑوں ملین بچوں میں سکول جانے کے باوجود پڑھنے اور ریاضی کی بنیادی صلاحیتوں کا فقدان تھا۔

اقوام متحدہ کے ادارے نے حالیہ اندازوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر میں 10سال عمر کے تمام بچوں کی دو تہائی تعداد ایک سادہ سی کہانی پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔

وسائل کی منصفانہ فراہمی

رپورٹ میں ہر طالب علم کو تعلیمی وسائل کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کو کہا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں چار سفارشات پیش کی گئی ہیں جن میں تعلیم کے لیے سرکاری تعلیمی وسائل کی مساوی فراہمی، سرکاری وسائل کو بنیادی تعلیم کے لیے ترجیح دینا، ترقیاتی اور امدادی تناظر میں تعلیمی امداد کی مساوی تقسیم کی نگرانی اور اسے یقینی بنانا اور تعلیم مہیا کرنے کے لیے اختراعی انداز میں سرمایہ کاری شامل ہیں۔