انسانی کہانیاں عالمی تناظر

طالبان سے بات چیت جاری رہنی چاہیے: افغانستان پر خصوصی نمائندہ

ایک مہاجر کیمپ میں افغان بچے۔
© UNICEF/Omid Fazel
ایک مہاجر کیمپ میں افغان بچے۔

طالبان سے بات چیت جاری رہنی چاہیے: افغانستان پر خصوصی نمائندہ

امن اور سلامتی

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کی سربراہ روزا اوٹںبائیووا نے کہا ہے کہ طالبان حکام اور مشن کے موقف میں اختلافات کے باوجود ملک کے لوگوں کی خاطر ان میں بات چیت جاری رہنی چاہیے۔

افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ نے سلامتی کونسل کے ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے اگست 2021 میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سیاسی امور اور انسانی حقوق سے متعلق موجودہ خدشات سمیت متعدد مثبت پیش ہائے رفت پر روشنی ڈالی ہے۔

Tweet URL

ان کا کہنا ہے کہ ''ہم کئی امور پر طالبان کے ساتھ متفق نہیں ہیں لیکن جس بات پر ہماری توجہ ہے اور ہونی چاہیے، وہ یہ ہے کہ ہمیں افغانستان کے بہتر مستقبل کی امید میں بات چیت جاری رکھنا ہے جہاں عورتوں، مردوں، لڑکیوں اور لڑکوں سمیت ہر فرد باعزت اور مساوی زندگی گزار سکے۔''

بدحال زندگی

اوٹنبائیووا نے ستمبر میں عہدہ سنبھالا تھا اور اس کے بعد انہوں نے افغانستان کے طول و عرض کے دورے کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''بہت سے افغانوں کی بدحالی مجھ پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوئی جو شدید غربت اور غیریقینی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ملک بھر کے دوروں میں بہت سے لوگوں نے مجھے بتایا کہ وہ محض بقا کی جدوجہد کر رہے ہیں۔''

انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ملک پر طالبان کا تسلط ہے لیکن وہ وہاں سرگرم دہشت گرد گروہوں سے خاطرخواہ طور پر نمٹنے میں ناکام ہیں۔ حال ہی میں شدت پسند دہشت گرد گروہ داعش سے منسلک دولت اسلامیہ صوبہ خراسان (آئی ایس کے پی) نے روس اور پاکستان کے سفارت خانوں اور ایک ہوٹل پر حملے کیے جہاں چین سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ مقیم تھے۔

اب طالبان کو اندرون ملک بہت کم مزاحمت کا سامنا ہے اور وہ بین الافغان بات چیت کی ضرورت کو مسترد کر چکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ بدستور وسیع تر مشاورت اور نمائندگی پر زور دے رہا ہے۔

خواتین کی محدود زندگی

افغانستان کے موجودہ حکمران کڑی سماجی پالیسیاں نافذ کر رہے ہیں جن میں بڑی تعداد میں ایسے احکامات بھی شامل ہیں جو خواتین کے لیے نقصان دہ ہیں اور ان سے خواتین کے لیے سماجی و سیاسی گنجائش محدود ہو گئی ہے۔

اوٹنبائیووا نے کہا کہ ''ثانوی تعلیم کی ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ دو سال میں کوئی لڑکی یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکے گی۔ یہ فیصلہ افغانوں اور خود طالبان کی قیادت میں بھی انتہائی غیرمقبول ہے۔''

گزشتہ مہینے طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ نے عدلیہ کو حکم دیا کہ شرعی قانون کے تحت ہر قابل اطلاق موقع پر سزائے موت اور جسمانی سزائیں نافذ کریں۔

اگرچہ ملک پر طالبان کے قبضے کے بعد ہی ان سزاؤں پر عملدرآمد شروع ہو گیا تھا تاہم پہلی مرتبہ سرعام سزائے موت 7 دسمبر کو دی گئی اور اس موقع پر طالبان کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔

خصوصی نمائندہ نے کہا کہ انہوں ںے ملک کے موجودہ حکمرانوں سے خاص طور پر کہا کہ سزائے موت انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ''یہ واضح ہے کہ 'یو این اے ایم اے' اور موجودہ حکام کے مابین بہت سے امور پر شدید اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔''

افغانستان کے موجودہ حالات میں خواتین اور بچے سب سے زیادہ تکلیف میں ہیں۔
UNAMA/Shamsuddin Hamedi
افغانستان کے موجودہ حالات میں خواتین اور بچے سب سے زیادہ تکلیف میں ہیں۔

ریکارڈ برآمدی آمدن

اوٹنبائیووا نے افغانستان میں متعدد مثبت پیش ہائے رفت خصوصاً معاشی محاذ پر دیکھی گئی بہتری کی اطلاع بھی دی۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کے قبضے سے پہلے جمہوری طور پر منتخب حکومت کے مقابلے میں اب بدعنوانی کی سطح میں ''نمایاں کمی'' آئی ہے۔ تاہم گزشتہ چھہ مہینوں میں مقامی سطح پر چھوٹے پیمانے پر بدعنوانی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

طالبان نے یہ اعلان بھی کہا کہ 2022 کے پہلے 10 مہینوں میں مالیاتی آمدنی گزشتہ دو سال کے مقابلے میں بڑھی ہے اور یہ پیش رفت 2021 میں 20 فیصد معاشی تنگی کے باوجود دیکھنے میں آئی۔

انہوں ںے کہا کہ ''اس آمدنی کے ساتھ اور سرکاری اخراجات کم کر کے طالبان نے اپنے عملی بجٹ کا بخوبی انتظام کیا ہے اور اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان کے پاس بعض ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے لیے مالی وسائل بھی موجود ہیں۔ 

مزید برآں طالبان خردمعاشی استحکام لانے میں بھی کامیاب رہے ہیں اور اس سال ملکی برآمدات کی مالیت نے 1.7 ارب ڈالر کی تاریخی حد کو چھوا جبکہ گزشتہ سال برآمدات کا حجم 700 ملین ڈالر تھا۔

خود انحصاری کے لیے سرمایہ کاری

اوٹنبائیووا نے کہا کہ ''افغانستان کے موجودہ حکمران ایک معاشی حکمت عملی پر عمل کر رہے ہیں جس میں خودانحصاری پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ وہ زراعت، آبپاشی، بنیادی ڈھانچے، پانی کے انتظام، کان کنی اور صنعتوں پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں جس سے معاشی ترقی کی بنیاد مہیا ہوتی ہے۔

انہوں نے نجی شعبے کو ترقی کا بنیادی محرک بھی قرار دیا ہے جبکہ بین الاقوامی مالیاتی لین دین کے بھاری اخراجات بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

اس بات کا ثبوت بھی پایا گیا ہے کہ افیون اور دیگر منشیات کی کاشت پر اپریل میں اعلان کردہ پابندی پر عمل ہو رہا ہے۔ پابندی کے اعلان سے پہلے اور اس کے بعد کاشت ہونے والی افیون تباہ کر دی گئی ہے۔''

خصوصی نمائندہ کا کہنا ہے کہ ''ہم آئندہ سال کے اوائل تک اس پابندی پر عملدرآمد کی حقیقی صورتحال کے بارے میں نہیں جان سکتے تاہم اس اقدام کا ارادہ قابل ستائش ہے۔ تاہم، یہ پابندی انفرادی طور پر کاشتکاری کرنے والوں کی آمدن پر منفی اثرات مرتب کرے گی کیونکہ روزگار کے گنے چنے متبادل پروگراموں پر ہی عملدرآمد ہوا ہے۔''

اوٹنبائیووا نے ستمبر میں عہدہ سنبھالا تھا اور اس کے بعد انہوں نے افغانستان کے طول و عرض کے دورے کیے ہیں۔
UN Photo/Eskinder Debebe
اوٹنبائیووا نے ستمبر میں عہدہ سنبھالا تھا اور اس کے بعد انہوں نے افغانستان کے طول و عرض کے دورے کیے ہیں۔

افغانوں کے خدشات کا ازالہ

اوٹنبائیووا نے خبردار کیا کہ اگر افغانوں کے حقیقی خدشات کا ازالہ نہ کیا گیا تو یہ معاشی پیش ہائے رفت پائیدار نہیں ہوں گی۔

'یو این اے ایم اے' نے حالیہ دنوں افغانستان کے 12 صوبوں میں متعلقہ فریقین کے اجلاس منعقد کیے۔ ان میں 500 سے زیادہ لوگوں نے حصہ لیا جن میں 189 خواتین اور 80 سے زیادہ طالبان نمائندے بھی موجود تھے۔

اس موقع پرلوگوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، طبی سہولیات کے فقدان، ذہنی صحت، غربت، معاشی عدم تحفظ اور نسلی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک جیسے معاملات پر تشویش کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانوں کو عالمی برادری کے طریقہ کار سے بھی مایوسی ہوئی ہے۔ وہ ایسے منصوبے چاہتے ہیں جو زیادہ طویل مدتی ہوں، جن میں امداد کے بجائے کام کے بدلے نقد رقم دی جائے اور جو مزید دوطرفہ، مشاورتی اور ترقی پر مبنی ہوں۔

'یو این اے ایم اے' کی سربراہ نے کہا کہ'' موجودہ حالات میں عطیہ دہندگان انسانی امداد سے بڑھ کر کوئی قدم اٹھانے پر بڑی حد تک متامل ہیں۔

جب تک لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی برقرار رہے گی اور موجودہ حکمران عالمی برادری کے بیان کردہ دیگر خدشات کو نظرانداز کرتے رہیں گے اس وقت تک حقیقی بہتری نہیں آ سکتی۔''