انسانی کہانیاں عالمی تناظر

خواتین کے حقِ تولیدی صحت کی خلاف ورزی اموات میں اضافے کا سبب

افریقی خواتین میں دوران حمل و زچگی اموات کا امکان یورپی اور شمالی امریکی خواتین کے مقابلے میں 130 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
© UNFPA Mali/Amadou Maiga
افریقی خواتین میں دوران حمل و زچگی اموات کا امکان یورپی اور شمالی امریکی خواتین کے مقابلے میں 130 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

خواتین کے حقِ تولیدی صحت کی خلاف ورزی اموات میں اضافے کا سبب

خواتین

جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) نے کہا ہے کہ دوران زچگی نصف سے زیادہ قابل انسداد اموات ایسے ممالک میں ہوتی ہیں جو بحرانوں یا آفات کا شکار ہیں۔

جنسی و تولیدی صحت اور حقوق میں عدم مساوات پر قابو پانے کے بارے میں ادارے کی نئی رپورٹ کے مطابق، نسل پرستی، جنسی تعصب اور دیگر طرح کی تفریق جنسی و تولیدی صحت کے مسائل کے حل میں رکاوٹ ہیں۔

Tweet URL

افریقی خواتین میں دوران حمل و زچگی اموات کا امکان یورپی اور شمالی امریکی خواتین کے مقابلے میں 130 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اگر غربت کا شکار خواتین اور لڑکیوں کا تعلق اقلیتی گروہوں سے ہو یا وہ جنگ زدہ علاقوں میں رہتی ہوں تو مناسب طبی نگہداشت کی عدم موجودگی میں ان کی قبل ازوقت موت کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ 

روزانہ 800 ہلاکتیں 

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنسی و تولیدی صحت کے متعدد اہم شعبوں میں پیش رفت سست رو ہے۔ دنیا میں ایک چوتھائی خواتین اپنے ساتھی کو جنسی عمل سے انکار نہیں کر سکتیں اور تقریباً 10 فیصد کو مانع حمل ذرائع استعمال کرنے کا اختیار نہیں ہے جبکہ روزانہ 800 خواتین دوران زچگی انتقال کر جاتی ہیں۔ 2016 سے اب تک ان اعدادوشمار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

روزانہ ہونے والی ان قابل انسداد اموات میں تقریباً 500 ایسے ممالک میں سامنے آتی ہیں جنہیں انسانی بحران اور مسلح تنازعات درپیش ہیں۔ 

'یو این ایف پی اے' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نتالیہ کینم کا کہنا ہے کہ دنیا نے خواتین کو دوران حمل و زچگی قابل انسداد اموات سے بچانے میں کوئی پیش رفت نہیں کی۔ 

یہ پہلا موقع ہے جب خواتین کے اپنے جسم پر اختیار کی صورتحال کے بارے میں اعدادوشمار جمع کیے گئے ہیں۔ جن ممالک میں یہ اعدادوشمار دستیاب ہیں ان میں سے 40 فیصد میں انتہائی پسماندہ خواتین کا یہ اختیار کمزور ہوا ہے۔ 

نسلی و طبقاتی عدم مساوات

رپورٹ کے مطابق مانع حمل، زچگی کی محفوظ خدمات،  زچگی میں باوقار نگہداشت اور دیگر ضروری خدمات کے معاملے میں شمالی و جنوبی دنیا اور مشرقی و مغربی ممالک کے مابین واضح تفاوت پایا جاتا ہے۔

خوشحال ممالک میں بھی بہت سی جگہوں پر نسلی و طبقاتی بنیادوں پر خواتین کی جنسی و تولیدی صحت کی صورتحال ایک جیسی نہیں ہے۔ براعظم ہائے امریکہ میں افریقی پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین میں دوران زچگی اموات کی شرح سفید فام خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ امریکہ میں یہ شرح قومی اوسط کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ 

مقامی و نسلی اقلیتوں کو بھی حمل اور زچگی میں طبی خطرات کا سامنا دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ 

مثال کے طور پر، یورپ کے ملک البانیہ میں انتہائی غریب طبقات سے تعلق رکھنے والی 90 فیصد سے زیادہ روما خواتین کو طبی خدمات کے حصول میں سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ان کے مقابلے میں البانوی نسل کی خوشحال خواتین کی صرف پانچ فیصد تعداد کو ہی ایسے مسائل درپیش ہیں۔ 

علاوہ ازیں، جسمانی معذوری کا شکار خواتین کے خلاف صنفی بنیاد پر تشدد کا امکان بھی دس گنا زیادہ ہوتا ہے۔ متنوع جنسی رحجانات اور صنفی اظہار کے حامل افراد کو مخصوص طرح کے تشدد کا نشانہ بننے کے خدشات بھی دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں۔ انہیں طبی نگہداشت کے حصول میں بھی دوسروں سے کہیں زیادہ رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔

بہتری کے اشاریے

رپورٹ کے مطابق، تین دہائیاں قبل پائیدار ترقی کے لیے ترجیحی ہدف بننے کے بعد جنسی و تولیدی صحت کے حوالے سے نمایاں بہتری بھی دیکھنے کو ملی ہے 

'یو این ایف پی اے' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نتالیا کینم نے رپورٹ کے اجراء پر کیا ہے کہ اب ان چاہے حمل کی شرح میں تقریباً 20 فیصد تک کمی آ چکی ہے۔ اسی طرح، زچہ کی اموات کی شرح میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے اور 160 سے زیادہ ممالک میں گھریلو تشدد کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ 

سرمایہ کاری کی ضرورت

رپورٹ میں لوگوں کی ضروریات پوری کرنے اور خواتین اور لڑکیوں کو اپنے مسائل کے حل کے اختراعی طریقوں سے کام لینے کے لیے مخصوص پروگرام شروع کرنے کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔ 

اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں 2030 تک 79 ارب ڈالر خرچ کر کے 400 ملین اَن چاہے حمل روکے جا سکتے ہیں، 10 لاکھ زندگیوں کو تحفظ دیا جا سکتا ہے اور اس طرح 660 ارب ڈالر کے معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔

نتالیا کینم کا کہنا ہے کہ تولیدی صحت کے حقوق کو تحفظ دینے کی اہلیت کا حصول ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ درحقیقت یہ مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین اور ہر ایک کے تولیدہ حقوق کے داعی بنیں۔