انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ہر 7 سیکنڈ میں زچہ یا بچہ دم توڑ جاتے ہیں: نئی یو این رپورٹ

انڈیا میں ایک حاملہ خاتون کا طبی معائنہ کیا جا رہا ہے۔
© UNICEF/Prashanth Vishwanathan
انڈیا میں ایک حاملہ خاتون کا طبی معائنہ کیا جا رہا ہے۔

ہر 7 سیکنڈ میں زچہ یا بچہ دم توڑ جاتے ہیں: نئی یو این رپورٹ

صحت

عالمی ادارہ صحت کی نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حاملہ خواتین، ماؤں اور نومولود بچوں کی قبل از وقت اموات میں کمی لانے کے لئے عالمگیر پیش رفت زچہ بچہ کی صحت پر سرمایہ کاری میں کمی کے باعث جمود کا شکار ہے۔

زچہ بچہ کی صحت اور بقا کی صورتحال کو بہتر بنانے اور مردہ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد میں کمی لانے کے موضوع پر شائع ہونے والی اس رپورٹ میں تازہ ترین معلومات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

Tweet URL

اس حوالے سے خطرے کے عوامل اور وجوہات یکساں ہیں اور اس رپورٹ میں اہم طبی خدمات کی فراہمی کی صورتحال بھی بتائی گئی ہے۔

مجموعی طور پر اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بقا کے حوالے سے پیش رفت 2015 کے بعد جمود کا شکار ہے اور ہر سال تقریباً 290,000 خواتین بچے کو جنم دیتے وقت انتقال کر جاتی ہیں۔ 1.9 ملین بچوں کا حمل کے 28 ہفتوں کے بعد انتقال ہو جاتا ہے اور 2.3 ملین نومولود بچوں کی زندگی پیدائش کے بعد پہلے مہینے میں ہی ختم ہو جاتی ہے۔ 

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال 4.5 ملین سے زیادہ خواتین اور بچوں کا حمل، بچے کی پیدائش یا پیدائش کے بعد پہلے ہفتے کے دوران انتقال ہو جاتا ہے۔ اس طرح ہر سیکنڈ کے بعد ایک موت واقع ہوتی ہے اور یہ اموات عام طور پر ایسی طبی وجوہات کی بنا پر ہوتی ہیں جن پر مناسب نگہداشت اور علاج کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے۔

نئی رپورٹ جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں ہونے والی ایک بڑی عالمی کانفرنس میں پیش کی گئی ہے۔

نظام ہائے صحت پر دباؤ

کووڈ۔19 وبا، بڑھتی ہوئی غربت اور بگڑتے انسانی بحرانوں نے پہلے سے مشکلات کا شکار نظام ہائے صحت پر بوجھ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ 100 سے زیادہ ممالک کے جائزے سے یہ سامنے آیا ہے کہ ہر 10 میں سے ایک ملک کے پاس صحت سے متعلق موجودہ منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے خاطرخواہ مقدار میں مالی وسائل نہیں ہیں۔

لازمی طبی خدمات پر وبا کے اثرات سے متعلق ڈبلیو ایچ او کے تازہ ترین جائزے کے مطابق تقریباً 25 فیصد ممالک دوران زچگی اور بچے کی پیدائش کے بعد ضروری طبی نگہداشت اور بیمار بچوں کو خدمات کی فراہمی میں آنے والے خلل کی تاحال اطلاع دے رہے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) میں زچہ بچہ، نوعمر بچوں اور بالغوں کی صحت اور بڑھتی عمر سے متعلق امور کے ڈائریکٹر انشو بینرجی نے کہا ہے کہ ''دنیا بھر میں حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کی شرح اموات ناقابل قبول حد تک زیادہ ہے اور کووڈ۔19 وبا نے انہیں درکار طبی نگہداشت کی فراہمی میں مزید رکاوٹیں ڈال دی ہیں۔

زندگی کی جدوجہد

مالی وسائل کی غیرموجودگی اور بنیادی طبی خدمات کی فراہمی کے لئے مطلوبہ مقدار میں سرمایہ کاری نہ ہونے سے حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کی بقا کے امکانات کو نقصان ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر اگرچہ قبل از وقت پیدائش دنیا بھر میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تمام اموات کا بڑا سبب نہیں ہے تاہم دنیا کے ایک تہائی سے بھی کم ممالک نے یہ بتایا ہے کہ ان کے پاس نومولود اور بیمار بچوں کے علاج کے لئے خاطرخواہ سہولیات موجود ہیں۔

ذیلی صحارا افریقہ اور وسطی و جنوبی ایشیا میں زچہ بچہ کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے جہاں 60 فیصد سے کم خواتین کو ڈبلیو ایچ او کے تجویز کردہ قبل از پیدائش آٹھ طبی معائنوں میں سے کم از کم چار میسر آتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے فنڈ برائے آبادی (یو این ایف پی اے) کے ٹیکنیکل ڈویژن کی ڈائریکٹر ڈاکٹر جولیٹا اونابانجو کا کہنا ہے کہ ''حمل یا زچگی کے دوران کسی بھی خاتون یا نوجوان لڑکی کی موت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔''

اس سے جنسی و تولیدی صحت کی معیاری خدمات تک رسائی بڑھانے کی فوری ضرورت کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ ایسا کرنا دنیا کے ہر فرد خصوصاً ایسے ممالک میں لوگوں کو بنیادی طبی نگہداشت مہیا کرنے کے وعدے کا حصہ ہے جہاں حالیہ برسوں میں زچہ کی اموات کی شرح برقرار رہی ہے یا اس میں اضافہ ہوا ہے۔

تحفظ زندگی کے لئے نگہداشت

ادارے کا کہنا ہے کہ خواتین اور بچوں کی بقا کی شرح میں اضافے کے لئے انہیں پیدائش کے عمل سے پہلے، اس کے دوران اور بعد میں سستی طبی نگہداشت اور خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی ہونی چاہئیے۔

اچھے نتائج کے حصول کے لئے ضروری ادویات اور طبی سازوسامان، صاف پانی اور بجلی کی قابل اعتبار فراہمی کے ساتھ مزید باصلاحیت اور پُرعزم طبی کارکنوں خصوصاً دائیوں کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ علاج معالجے میں غیرمحفوظ حالات میں رہنے والی اور غریب ترین خواتین پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کے تحفظ زندگی میں مددگار نگہداشت سے محروم رہنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں بہتر منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری سے کام لینا بھی ضروری ہے۔