انسانی کہانیاں عالمی تناظر

زچگی کے طویل مدتی طبی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت، ماہرین

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دوران حمل اور زچگی کے تمام مراحل میں موثر طبی نگہداشت کی بدولت کئی مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔
© UNICEF/Farhana Satu
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دوران حمل اور زچگی کے تمام مراحل میں موثر طبی نگہداشت کی بدولت کئی مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔

زچگی کے طویل مدتی طبی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت، ماہرین

صحت

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ ہر سال کم از کم 4 کروڑ خواتین کو بچوں کی پیدائش کے باعث ایسے طبی مسائل لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جن کے اثرات طویل مدت تک قائم رہتے ہیں۔

بعد از حمل تقریباً ایک تہائی سے زیادہ خواتین کو جنسی عمل کے دوران ہونے والی تکلیف، کمر کے نچلے حصے میں درد اور پاخانے و پیشاب پر ضبط کھو دینے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Tweet URL

'ڈبلیو ایچ او' نے یہ بات معروف طبی جریدے دی لینسیٹ کے ایک تازہ ترین جائزے کا حوالہ دیتے ہوئے بتائی ہے۔ زچہ کی صحت کے حوالے سے ایک خصوصی تحقیقی سلسلے میں لیے گئے جائزے سے یہ سامنے آیا ہے کہ بعد از حمل پیش آنے والی بہت سی طبی پیچیدگیاں کئی مہینوں یا برسوں تک بھی برقرار رہتی ہیں۔

طویل مدتی طبی مسائل

اس تحقیق کے مصںفین نے طبی مسائل میں ان عام امراض کے حوالے سے سمجھ بوجھ بڑھانے پر زور دیا ہے۔ 

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دوران حمل اور زچگی کے تمام مراحل میں موثر طبی نگہداشت کی بدولت ان مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ اس طرح خطرات کی نشاندہی اور ان پیچیدگیوں سے بچاؤ میں مدد ملتی ہے جو بعداز پیدائش طویل مدتی طبی مسائل کا باعث بن سکتی ہیں۔

ایسے دیگر مسائل میں تھکاوٹ، ڈپریشن، پیشاب کی تکالیف، بچے کی پیدائش سے خوف اور ثانوی درجے کا بانجھ پن شامل ہیں۔

تکالیف بھری زندگی

'ڈبلیو ایچ او' میں جنسی و تولیدی صحت و تحقیق کے شعبے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر پاسکل ایلوٹے نے کہا ہے کہ بعداز حمل بہت سے طبی امراض خواتین کی روزمرہ زندگی کو سنگین تکالیف سے دوچار کرتے ہیں۔ ان میں ذہنی و جسمانی دونوں طرح کے مسائل شامل ہیں۔ اس کے باوجود ان مسائل کو عموماً اہمیت نہیں دی جاتی، انہیں نظرانداز کر دیا جاتا ہے یا یہ پوری طرح سامنے نہیں آتے۔ 

ایسی خواتین کو زندگی بھر اور ماں بننے کے بعد بھی بہت سی طبی خدمات درکار رہتی ہیں تاکہ وہ اچھی صحت اور معیاری زندگی سے لطف انداز ہو سکیں۔ 

تحقیق کا فقدان 

بڑی تعداد میں خواتین کو درپیش یہ حالات طبی تحقیق، علاج معالجے اور طبی پالیسی سازی میں عام طور پر نظر انداز ہو جاتے ہیں۔

جائزے کے مصنفین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 12 برس میں شائع ہونے والی اعلیٰ معیار کی رہنمائی میں ایسی 32 طبی پیچیدگیوں میں سے تقریباً 40 فیصد کے موثر علاج کا تذکرہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں، کم یا متوسط درجے کی آمدنی والے کسی ملک میں اعلیٰ معیار کی ایسی کوئی ایک تحقیق بھی نہیں ملتی۔