انسانی کہانیاں عالمی تناظر

جنسی و تولیدی معاملات میں خواتین آج بھی مکمل بااختیار نہیں

سپین کے شہر میڈرڈ میں خواتین جنسی و تولیدی حقوق کے لیے مظاہرہ کر رہی ہیں۔
© Unsplash/Mari Vlassi
سپین کے شہر میڈرڈ میں خواتین جنسی و تولیدی حقوق کے لیے مظاہرہ کر رہی ہیں۔

جنسی و تولیدی معاملات میں خواتین آج بھی مکمل بااختیار نہیں

خواتین

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے خواتین کی جنسی و تولیدی صحت سے متعلق نامکمل ایجنڈے پر پیش رفت کے لیے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو اپنی زندگی اور جسم کے بارے میں فیصلوں کا مکمل اختیار ہونا چاہیے۔

بین الاقوامی کانفرنس برائے آبادی و ترقی (آئی سی پی ڈی) کو 30 سال مکمل ہونے پر جینیوا میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کے 68 ممالک میں اندازاً 44 فیصد شادی شدہ یا کسی ساتھی کے ساتھ رہنے والی خواتین کو جنسی تعلقات، مانع حمل ذرائع کے استعمال اور طبی نگہداشت تک رسائی کے لیے خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔

Tweet URL

خواتین کو کسی امتیاز، جبر یا تشدد کے بغیر یہ طے کرنے کا حق ہونا چاہیے کہ آیا وہ بچے پیدا کرنا چاہتی ہیں، ایسا کب کرنا چاہیں گی اور انہیں کتنے اور کس کے ساتھ بچے پیدا کرنا ہیں۔

ہائی کمشنر نے اس حوالے سے گزشتہ تین دہائیوں میں ہونے والے اہم اقدامات کو سراہا جن میں دوران حمل اموات میں نمایاں کمی اور صحت عامہ، تعلیم و سماجی خدمات پر ٹھوس سرمایہ کاری بھی شامل ہے جبکہ ماضی کے مقابلے میں اب لوگوں کی بڑی تعداد طویل اور صحت مند زندگی گزار رہی ہے۔

قاہرہ میں ہونے والی 'آئی سی پی ڈی' کانفرنس میں شریک ممالک نے ایک لائحہ عمل کی منظوری دی تھی جس میں عہد کیا گیا تھا کہ خواتین اور لڑکیوں کو اپنی زندگیوں، اپنے جسم اور اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ تاہم، وولکر تُرک نے کہا کہ اس عرصہ میں پیش رفت کے ساتھ پسِ رفت بھی دیکھنے کو ملی ہے اور اس ایجنڈے کو اب مکمل کیا جانا چاہیے۔ 

خواتین کے حقوق اور زہریلی مردانگی

ہائی کمشنر نے کہا کہ کووڈ۔19، جنگوں اور معاشی گراوٹ نے بھی خواتین اور لڑکیوں کو غیرمتناسب طور سے متاثر کیا ہے۔ جنگوں اور قدرتی آفات کے دوران بھی بچے پیدا ہوتے رہے ہیں اور خواتین حاملہ ہوتی رہی ہیں۔

اس وقت غزہ میں اندازاً 50 ہزار خواتین حاملہ ہیں جہاں اس وقت صحت کی سہولیات پر حملے ہو رہے ہیں۔ مغربی افغانستان میں اس ماہ آنے والے زلزلے کے بعد حاملہ خواتین کو مزید بدحالی کا سامنا ہے جبکہ یوکرین میں خواتین اور لڑکیوں کو جنسی اور تولیدی صحت کی خدمات تک رسائی میں مشکلات درپیش ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دہائی میں زچگی میں اموات کی شرح برقرار رہی ہے اور آج ہر دو منٹ کے بعد ایک خاتون حمل اور زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث انتقال کر جاتی ہے۔ 

دنیا کے بہت سے حصوں میں قاہرہ کانفرنس میں طے کردہ اصولوں پر پوری طرح عملدرآمد نہیں ہوا۔ صنفی مساوات کے خلاف ردعمل میں اضافہ ہو رہا ہے، خواتین اور لڑکیوں کی خوداختیاری اور خاندانوں اور گھرانوں میں اپنے مستقبل یا اپنے کردار خود منتخب کرنے کے لیے ان کی صلاحیت سے انکار کیا جا رہا ہے اور ان کی آوازوں کو دبایا جا رہا ہے۔

زہریلی مردانگی اور عورت دشمنی نے نفرت کو ہوا دی ہے اور اسے معمول بنا دیا ہے۔

غیرمحفوظ اسقاط حمل 

دنیا بھر میں ہر سال 3 کروڑ 30 لاکھ غیرمحفوظ اسقاط حمل کیے جاتے ہیں اور یہ زچگی میں اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔

وولکر تُرک نے گزشتہ پانچ برس میں کئی ممالک کی جانب سے اس حوالے سے قوانین میں نرمی لائے جانے کا خیرمقدم کیا جس میں غیر ازدواجی حمل کو جرم کی فہرست سے نکالنے، محفوظ اسقاط حمل کے حق میں قوانین کو وسعت دینے اور طبی خدمات تک رسائی کی راہ میں رکاوٹیں ختم کیے جانے کے اقدامات شامل ہیں۔

خواتین اور انسانی حقوق کے کارکن امریکہ کی سپریم کورٹ کی طرف سے اسقاط حمل کو جرم قرار دیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
Unsplash/Gayatri Malhotra
خواتین اور انسانی حقوق کے کارکن امریکہ کی سپریم کورٹ کی طرف سے اسقاط حمل کو جرم قرار دیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

'قاہرہ کا عہد پورا کریں'

ہائی کمشنر نے کہا کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حوالے سے ہر طرح کی پس قدمی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث ممالک پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کی راہ اور 'آئی سی پی ڈی' کے لائحہ عمل سے منحرف ہوئے ہیں تاہم درست راستے پر واپس آنے کے لیے اب بھی وقت ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ ان کا دفتر "انسانی حقوق کی معیشت" کی جانب ایسی کوششوں کے فروغ کے لیے ممالک کے ساتھ کام کر رہا ہے جن میں لوگوں اور ہماری زمین کو تمام پالیسیوں، منصوبوں اور پروگراموں میں مرکزی اہمیت دی جائے۔ زندگیوں میں تبدیلی لانے اور انہیں تحفظ دینے کے لیے دنیا کو تیس سال پہلے قاہرہ میں تمام خواتین اور لڑکیوں سے کیے گئے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔ 

اس میں خواتین اور لڑکیوں کو جامع جنسی تعلیم، مانع حمل کے جدید ذرائع اور جنسی و تولیدی صحت کی معیاری خدمات تک رسائی بشمول محفوظ اور بروقت اسقاط حمل کی خدمات، زچہ بچہ کی طبی نگہداشت اور اپنے فیصلے خود کرنے کی آزادی مہیا کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔