انسانی کہانیاں عالمی تناظر

میانمار کی صورتحال کا تقاضا بین الاقوامی یکجہتی و تعاون، یو این

میانمار میں اندرونی طور پر نقل مکانی پر مجبور ایک خاندان تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب پھر رہا ہے۔
© UNOCHA/Siegfried Modola
میانمار میں اندرونی طور پر نقل مکانی پر مجبور ایک خاندان تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب پھر رہا ہے۔

میانمار کی صورتحال کا تقاضا بین الاقوامی یکجہتی و تعاون، یو این

امن اور سلامتی

قیام امن و سیاسی امور کے لیے اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل خالد خیری نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ میانمار میں تین سال سے جاری مسلح تنازع میں عام شہری بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور اب یہ بحران ملکی سرحدوں سے باہر بھی پھیلنے لگا ہے۔

فروری 2021 میں فوج کی جانب سے منتخب حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد پورا ملک تشدد کی لپیٹ میں ہے جس کے نتیجے میں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں اور سیاسی و انسانی حقوق پر زد پڑ رہی ہے۔

Tweet URL

میانمار کے مسئلے پر سلامتی کونسل کے پہلے عام اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ملک کی مسلح افواج کی جانب سے فضائی بمباری اور توپخانے کے حملوں سے شہریوں کا جانی نقصان بڑھتا جا رہا ہے۔ فوج نے سابق صدر ون میئنٹ اور سٹیٹ قونصلر آنگ سان سوکی سمیت ہزاروں سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور عام شہریوں کو گرفتار کر رکھا ہے۔ 

روہنگیا آبادی کا تحفظ

خالد خیری کا کہنا تھا کہ میانمار کی غریب ترین ریاست راخائن میں فوج اور اس کے مخالف عسکری گروہ آراکان آرمی کے درمیان لڑائی میں تشدد نے غیرمعمولی سطح کو چھو لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق آراکان آرمی وسطی راخائن کے بیشتر علاقوں پر تسلط جمانے کے بعد اب شمالی علاقوں کی جانب بڑھ رہی ہے جہاں روہنگیا آبادی مقیم ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ بحران سے نکلنے کا پائیدار لائحہ عمل تشکیل دینے کے لیے روہنگیا بحران کی بنیادی وجوہات سے نمٹنا بھی ضروری ہے۔ اگر اس میں ناکامی ہوئی اور روہنگیا آبادی پر مظالم ڈھانے والے قانون کی گرفت سے بچ نکلے تو میانمار میں تشدد کا سلسلہ ختم نہیں ہو سکے گا۔ 

راخائن میں تمام فریقین کو چاہیے کہ وہ روہنگیا آبادی کو تحفظ مہیا کریں۔ ملک میں ان کی نقل و حرکت پر پابندیاں ہیں، انہیں شہریت سے محروم رکھا گیا ہے اور وہ فوج کی جانب سے اغوا اور جبری بھرتیوں کے اقدامات سے غیرمتناسب طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ نقل مکانی پر مجبور ہونے والی روہنگیا خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے بھی سنگین خدشات پائے جاتے ہیں جن کے لیے جنسی تشدد، جنسی استحصال اور انسانی سمگلنگ کے خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

خالد خیری نے بتایا کہ راخائن کے موجودہ حالات روہنگیا آبادی کی فوری، محفوظ، باوقار، رضاکارانہ اور پائیدار واپسی کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ انہوں نے مظالم اور تشدد سے جان بچا کر علاقہ چھوڑنے والوں تک رسائی اور ہر جگہ ایسے پناہ گزینوں کو تحفظ دینے کی کوششوں میں اضافے کے لیے سیکرٹری جنرل کے مطالبے کو دہرایا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے علاقائی سطح پر تحفظ کے موثر نظام کی موجودگی اور غلط و گمراہ کن اطلاعات سمیت نفرت پر مبنی اظہار سے نمٹنے کے لیے پیشگی کوششوں کی ضرورت ہے۔ 

انہوں نے روہنگیا پناہ گزینوں کی بحیرہ انڈیمان اور خلیج بنگال کے پانیوں میں خطرناک سفر کے دوران ہلاکتوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور ان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے مزید پائیدار اقدامات کی ضرورت واضح کی۔

تشدد اور سیاسی جبر

خالد خیری نے کہا کہ میانمار کے موجودہ بحران کا کوئی بھی حل ایسے حالات کا تقاضا کرتا ہے جن میں ملک کے لوگ آزادانہ اور پرامن طور سے اپنے انسانی حقوق سے کام لے سکیں۔ اس مقصد کے لیے تشدد اور سیاسی جبر کی عسکری مہم کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس حوالے سے سیکرٹری جنرل نے فوج کی جانب سے انتخابات کرانے کے ارادے پر خدشات کا اظہار کیا ہے جبکہ ملک میں خانہ جنگی شدت اختیار کر رہی ہے اور انسانی حقوق بڑے پیمانے پر پامال ہو رہے ہیں۔ 

ریاستی انتظامی کونسل کی جانب سے جبری بھرتی کے قانون کے نفاذ کے باعث فوج کے خلاف سماجی سطح پر بے چینی بڑھ بھی گئی ہے۔ نتیجتاً دیہاتی منتظمین پر حملے ہو رہے ہیں، جبری بھرتی کیے گئے نوجوان خودکشیاں کر رہے ہیں اور سرحد پار نقل مکانی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ افرادی قوت میں نوجوانوں کی کمی کے باعث ملک کے سماجی معاشی حالات بھی خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ 

منشیات کی پیداوار اور جرائم

اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ میانمار کا بحران پھیل رہا ہے۔ اہم سرحدی علاقوں میں جاری لڑائی کے باعث قانون کی عملداری کمزور پڑ گئی ہے جس کے نتیجے میں غیرقانونی معیشت فروغ پا رہی ہے۔

ان حالات میں میانمار میتھم فیٹامائن اور افیون کی پیداوار کا عالمی مرکز بن چکا ہے اور خاص طور پر سرحدی علاقوں میں دھوکہ دہی پر مبنی سائبر سرگرمیاں بھی تیزی سے فروغ پا رہی ہیں۔ روزگار کے مواقع کمیاب ہو جانے کے باعث جرائم میں اضافہ ہو گیا ہے۔ پہلے یہ تمام مجرمانہ سرگرمیاں علاقائی مسئلہ تھیں جس سے اب پوری دنیا کے لیے خطرات جنم لے رہے ہیں۔ 

اقوام متحدہ کا کردار

انہوں نے کہا کہ میانمار کی صورتحال اس علاقے کے لیے بڑے پیمانے پر بین الاقوامی یکجہتی اور تعاون کا تقاضا کرتی ہے۔ اقوام متحدہ اس معاملے میں علاقائی ممالک کی تنظیم آسیان کے ساتھ مل کر میانمار کے حوالے سے پانچ نکاتی اتفاق رائے پر عملدرآمد کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔

سیکرٹری جنرل اس مقصد کے لیے آئندہ دنوں ایک خصوصی نمائندے کے تقرر کا ارادہ رکھتے ہیں جو آسیان، اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور متعلقہ افریقین کے ساتھ کام کرتے ہوئے ملکی بحران کا سیاسی حل نکالنے کے لیے کوششیں کریں گے۔ 

خالد خیری کا کہنا تھا کہ میانمار کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سلامتی کونسل کا کردار اور اس کی قرارداد 2669 پر عملدرآمد بھی ضروری ہے جو دسمبر 2022 میں منظور کی گئی تھی۔