انسانی کہانیاں عالمی تناظر

میانمار کے فوجی حکمرانوں کو تسلیم نہ کریں، ماہر انسانی حقوق

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف ایک مظاہرہ۔
Unsplash/Pyae Sone Htun
میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف ایک مظاہرہ۔

میانمار کے فوجی حکمرانوں کو تسلیم نہ کریں، ماہر انسانی حقوق

امن اور سلامتی

میانمار میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کے متعین کردہ غیرجانبدار ماہر نے کہا ہےکہ عالمی برادری ملک کی فوجی حکومت کو قانونی تسلیم کرنے سے انکار کرے۔

اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار تھامس اینڈریوز نے میانمار میں فوجی حکومت کو تیسرا سال شروع ہونے کے موقع پر جمہوریت اور انتخابی معاونت سے متعلق ادارے 'انٹرنیشنل آئیڈیا' کی مشترکہ میزبانی میں ایک خصوصی رپورٹ کے اجرا کی تقریب سے خطاب میں ریاستی انتظامی کونسل (ایس اے سی) کو غیرقانونی اور ناجائز قرار دیا۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فوجی حکومت کے خلاف مضبوط موقف اپنائے۔

Tweet URL

نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں بریفنگ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میانمار کی فوجی حکومت پر مضبوط و مربوط پابندیاں عائد کرنے اور جمہوری قومی اتحاد کی حکومت کی مدد کے لیے رکن ممالک کا اتحاد تشکیل دیا جائے جس کا ملک میں قانونی دعویٰ مضبوط ہے۔

خصوصی اطلاع کار نے ''غیرقانونی اور ناجائز: میانمار کی حکومت کی حیثیت سے فوج کے دعوے کا جائزہ اور عالمی رد عمل' کے عنوان سے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ''دو سال پہلے فوج نے ایک غیرآئینی بغاوت میں ملک کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹا۔

میانمار کے لوگوں پر ڈھائے جانے والے متواتر تشدد سے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق، امداد اور معیشت کے بحران نے جنم لیا اور ملک بھر میں حزب مخالف کو مضبوط کیا ہے۔''

پابندیاں، امداد کی یقینی ضرورت

انہوں نے کہا، نتجہ واضح ہے کہ ''ایس اے سی'' کی فوجی بغاوت غیرقانونی تھی اور میانمار کی حکومت کی حیثیت سے اس کا دعویٰ بھی غیرقانونی ہے۔ درحقیقت ''جعلی انتخابات'' کی منصوبہ بندی سے پہلے اس بحران کے حوالے سے ایک نیا اور مربوط بین الاقوام اقدام ضروری ہے۔

انہوں نے تمام رکن ممالک خصوصاً پہلے ہی میانمار کی فوجی حکومت کے خلاف اقدامات کرنے والے ملکوں پر زور دیا کہ وہ معاشی پابندیوں اور ایس اے سی کو اسلحے کی فراہمی پر رکاوٹوں کو مضبوط و مربوط بنانے اور ان کے نفاذ کے لیے ایک سٹریٹجک طریق کار کا آغاز کریں اور لاکھوں انتہائی ضرورت مند لوگوں کو مزید موثر انسانی امداد فراہم کریں۔"

رپورٹ کے اجرا کے موقع پر انٹرنیشنل آئیڈیا نے 'انتخابات دوراہے پر: بغاوت کے بعد میانمار میں انتخابی نمونے کا ملاحظہ' کے عنوان سے اپنا تازہ ترین پالیسی پیپر پیش کیا۔

اس میں ابھرتے ہوئے نئے آئینی تناظر میں حقیقی جمہوری انتخابات کے لیے قابل غور اہم امور کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جس میں مجموعی انتخابی قانونی ڈھانچہ، ووٹروں کا اندراج اور انتخابی تنازعات کا حل بھی شامل ہیں۔

'تباہ کن' صورت حال

سیکرٹری جنرل سمیت اقوام متحدہ کے دیگر اعلیٰ سطحی حکام نے میانمار کی صورتحال کے حوالے سے ہنگامی اقدامات کے لیے کہا ہے۔

میانمار کے بارے میں سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ نوئلین ہیزر نے ملک کی موجودہ صورتحال کا خاکہ پیش کیا۔ حالیہ اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2023 میں 17.5 ملین لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے جبکہ فوجی حکومت آنے سے پہلے ایسے لوگوں کی تعداد ایک ملین تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ''حالیہ بحران کے ملک اور لوگوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے کام کرنے والے لوگوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ سیاسی بحران ہی دراصل انسانی بحران کا سبب ہے۔''

انہوں نے کہا کہ عالمی بینک کے مطابق ملک کی 40 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اس کے علاوہ فی الوقت 15.2 ملین لوگوں کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے اور گزشتہ دو سال میں 34,00 سے زیادہ عمارتیں نذر آتش ہو چکی ہیں۔

خصوصی نمائندہ نولین ہیزر گزشتہ سال اگست میں کاکس بازار میں روہنگیا پناہ گزینوں سے ملی تھیں۔
OSE-Myanmar
خصوصی نمائندہ نولین ہیزر گزشتہ سال اگست میں کاکس بازار میں روہنگیا پناہ گزینوں سے ملی تھیں۔

تباہ کن انسانی مصائب

خصوصی نمائندہ نے کہا کہ ''انسانی مصائب کے حوالے سے یہ صورتحال تباہ کن ہے اور اس کے اثرات علاقائی اور عالمی سطح پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔''

انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2669 (2002) پہلا موقع ہے جب میانمار کی آزادی کے بعد اس کے بارے میں کوئی مذمتی قرارداد منظور کی گئی ہے اور اس سے انتہائی فوری توجہ کے متقاضی امور پر بے مثال بین الاقوامی اتحاد اور تعاون کا اظہار بھی ہوتا ہے۔

فوری اقدامات کے مطالبات

خصوصی نمائندہ نے تین اہم شعبوں میں عالمی برادری کو بھرپور اتحاد اور عزم کا مظاہرہ کرنے کو کہا جن میں شراکت داروں کے مابین امدادی کوششوں میں اضافہ کرنا، ممکنہ انتخابات کے بارے میں متحدہ موقف اپنانا اور شہریوں کو تحفظ دینے کے اقدمات پر عملدرآمد کرانا شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''اپنے ہی شہریوں کو نقصان پہنچانے والوں کے ہاتھوں کسی طرح کی پرامن اور جمہوری تبدیلی ناقابل تصور ہے۔ تشدد کو روکا جائے اور فضائی بمباری، عمارتوں کو جلانے نیز فوجی حکومت کی جانب سے سیاسی رہنماؤں، سول سوسائٹی کے کرداروں اور صحافیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔''