انسانی کہانیاں عالمی تناظر

میانمار میں غلط معلومات اور نفرت انگیزی پر یو این کو تشویش

موٹر سائیکل سوار ریاست راخائن کے ایک شہر سے گزر رہے ہیں۔
© UNICEF/ Naing Linn Soe
موٹر سائیکل سوار ریاست راخائن کے ایک شہر سے گزر رہے ہیں۔

میانمار میں غلط معلومات اور نفرت انگیزی پر یو این کو تشویش

امن اور سلامتی

میانمار میں کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم نے ملک کی تشدد زدہ ریاست راخائن میں گمراہ اطلاعات کے پھیلاؤ اور اظہار نفرت میں اضافے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔

راخائن ملکی فوج اور باغی ملیشیاؤں کے مابین لڑائی کا مرکز ہے جہاں بے وطن مسلم روہنگیا آبادی بڑی تعداد میں مقیم ہے جو حکام کے ہاتھوں سالہا سال سے مظالم کا سامنا کر رہی ہے۔ 

حکمران فوج اور باغی مسلح گروہ آراکان آرمی کے مابین ایک سالہ غیررسمی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد ریاست کے 17 میں سے 15 انتظامی علاقوں میں لڑائی جاری ہے۔ 

فرقہ وارانہ تشدد کا خطرہ 

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے کہا ہے کہ ادارہ راخائن میں مقامی رہنماؤں بالخصوص خواتین اور نوجوانوں کی مکمل حمایت کرتا ہے جو سماجی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ لوگ ایسے حالات میں یہ کام کر رہے ہیں جب تناؤ اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تشدد میں اضافے کا خطرہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ راخائن میں لوگوں سے روا رکھے جانے والے سوچے سمجھے امتیازی سلوک اور حقوق کی پامالیوں کے ارتکاب پر کھلی چھوٹ کی بنیادی وجوہات سے نمٹنا ضروری ہے۔ میانمار کو درپیش حالیہ بحران کا پائیدار حل اسی صورت ممکن ہو گا۔ اس میں ناکامی کے نتیجے میں تشدد اور عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ

ترجمان کا کہنا ہےکہ اقوام متحدہ میانمار میں شہریوں کے خلاف ہر طرح کے تشدد کی متواتر مذمت کرتا آیا ہے اور ملک میں شہریوں بشمول امدادی کارکنوں کو بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت تحفظ دینے پر زور دیتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے میانمار کے حکام سے کہا ہے کہ لڑائی بند کی جائے اور ضرورت مندوں تک انسانی امداد کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔ 

گزشتہ مہینے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے خبردار کیا تھا کہ ریاست راخائن ایک مرتبہ پھر میدان جنگ بن چکی ہے جس میں کئی کردار ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اس جنگ کی بھیانک قیمت عام شہریوں کو چکانا پڑ رہی ہے جن میں روہنگیا آبادی سنگین خطرات سے دوچار ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات خاص طور پر پریشان کن ہے کہ 2017 میں روہنگیا کو میانمار کی فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز نے نشانہ بنایا تھا جبکہ اب وہ دو مسلح دھڑوں کے درمیان پھنس چکے ہیں جو ایک دوسرے کو ہلاک کرتے آئے ہیں۔ 

ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ روہنگیا کو دوسری مرتبہ مظالم کا نشانہ بننے سے بچانا ہو گا۔