انسانی کہانیاں عالمی تناظر

دنیا میں 20 فیصد خوراک کا ضیاع جبکہ 78 کروڑ 30 لاکھ افراد بھوک کا شکار

تہواروں اور دعوتوں میں اتنا کھانا تیار کریں جتنے مہمان مدعو ہیں۔
Unsplash/Jed Owen
تہواروں اور دعوتوں میں اتنا کھانا تیار کریں جتنے مہمان مدعو ہیں۔

دنیا میں 20 فیصد خوراک کا ضیاع جبکہ 78 کروڑ 30 لاکھ افراد بھوک کا شکار

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ کے عالمی ماحولیاتی ادارے (یو این ای پی) نے بتایا ہے کہ دنیا کی ایک تہائی آبادی کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے جبکہ روزانہ ایک ارب کھانوں کے برابر خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔

خوراک کے ضیاع پر 'یو این ای پی' کے تازہ ترین اشاریے کے مطابق 2022 میں پیدا ہونے والی 1.05 ارب ٹن (تقریباً 19 فیصد) خوراک بے مصرف رہی۔ یہ صارفین کے لیے دستیاب وہ خوراک تھی جو کئی انداز میں خوردہ فروشی، بیرون خانہ کھانے پینے کی جگہوں پر اور گھروں میں ضائع ہوئی۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق مزید 13 فیصد خوراک اجناس کی کٹائی سے فروخت تک ترسیلی مراحل میں ضائع ہو گئی۔

Tweet URL

فضلے کے خاتمے کے عالمی دن سے قبل شائع ہونے والی اس رپورٹ کی تیاری میں موسمیاتی اقدامات کے لیے کام کرنے والے برطانوی غیرسرکاری ادارے 'ڈبلیو آر اے پی' نے بھی تعاون کیا ہے۔ 

اس میں خوردہ فروشی اور صَرف کے دوران ضائع ہونے والی خوراک کے بارے میں درست ترین تخمینے پیش کیے گئے ہیں۔ ان سے ممالک کو پائیدار ترقی کے ہدف (12.3) کے حصول کی خاطر معلومات کا حصول بہتر بنانے اور موزوں طریقہ کار اختیار کرنے میں رہنمائی ملتی ہے۔ اس ہدف کے تحت دنیا کو ضائع ہونے والی خوراک کی مقدار میں 2030 تک نصف حد تک کمی لانا ہے۔

عالمگیر المیہ

دنیا میں سب سے زیادہ خوراک گھروں میں ضائع ہوتی ہے جس کا سالانہ حجم 631 ملین ٹن ہے۔ یہ ضائع ہونے والی مجموعی خوراک کا تقریباً 60 فیصد ہے۔ بیرون خانہ کھانے پینے کی جگہوں پر اور خوردہ فروشی کے دوران بالترتیب 290 اور 131 ملین ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے۔ 

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کا ہر فرد سالانہ اوسطاً 79 کلو گرام خوراک ضائع کرتا ہے۔ اس سے دنیا میں بھوک سے متاثرہ ہر فرد کو روزانہ 1.3 کھانے مہیا کیے جا سکتے ہیں۔ 

'یو این ای پی' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے کہا ہے کہ خوراک کا ضیاع عالمگیر المیہ ہے۔ دنیا بھر میں خوراک ضائع ہونے کی وجہ سے آج لاکھوں لوگ بھوکے ہیں۔ اس مسئلے سے ناصرف عالمی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

امیر و غریب ممالک کا یکساں مسئلہ

'یو این ای پی 2021 سے خوراک کے ضیاع کی نگرانی کر رہا ہے جس کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف دولت مند ممالک تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ اونچے، بالائی متوسط اور کمتر متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں خوراک کے فی کس سالانہ ضیاع کی شرح میں صرف سات کلو گرام کا فرق ہے۔

شہری و دیہی آبادیوں میں خوراک کے ضیاع کی شرح میں نمایاں فرق دیکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر متوسط آمدنی والے ممالک میں دیہی آبادی نسبتاً کم مقدار میں خوراک ضائع کرتی ہے۔ اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ دیہات میں بچ جانے والی خوراک جانوروں کو کھلا دی جاتی ہے اور مضافاتی علاقوں میں کھاد کے طور پر استعمال ہو جاتی ہے۔ 

رپورٹ میں خوراک کے ضیاع کو محدود رکھنے کی کوششوں کو بہتر بنانے اور شہروں میں اس کا بطور کھاد استعمال بڑھانے کی سفارش کی گئی ہے۔ 

غذائی ضیاع اور موسمیاتی تبدیلی

شدید گرمی اور خشک سالی کے باعث خوراک کو محفوظ رکھنے، اسے پیشگی تیار کرنے، خوراک کی نقل و حمل اور بحفاظت فروخت کے دوران اس کی بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے۔ 

'یو این ای پی' کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ 10 فیصد گرین ہاؤس گیسیں خوراک کے نقصان اور ضیاع کے نتیجے میں خارج ہوتی ہیں جو کہ ہوابازی کے شعبے سے خارج ہونے والی گیسوں کے مقابلے میں پانچ گنا بڑی مقدار ہے۔ اسی لیے خوراک کے ضیاع سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو پانا ضروری ہے۔ 

رپورٹ کے مطابق اوسط درجہ حرارت اور خوراک کے ضیاع کی سطحوں میں براہ راست تعلق ہے۔ گرم ممالک میں درون خانہ خوراک کے فی کس ضیاع کی شرح زیادہ ہے۔ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ وہاں خوراک میں زیادہ تر ایسی اجناس استعمال ہوتی ہیں جن کے تمام حصے کھائے نہیں جاتے اور بہت سے علاقوں میں چیزوں کو ٹھنڈا اور محفوظ رکھنے کی سہولت بھی نہیں ہوتی۔ 

خوراک برائے امید

رپورٹ میں اس مسئلے پر قابو پانے کے حوالے سے پُرامید امکانات اور مثالوں کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہر سطح پر بڑی تعداد میں حکومتیں خوراک کے ضیاع کو روکنے اور موسم و پانی پر اس ضیاع کے اثرات کو محدود رکھنے کے لیے نجی و سرکاری شعبے کی شراکتوں کو ترقی دے رہی ہیں۔

جاپان اور برطانیہ اس کی نمایاں مثال ہیں جہاں اس طریقے سے خوراک کے ضیاع میں بالترتیب 18 اور 31 فیصد تک کمی لائی گئی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر مناسب طور سے راشن بندی کی جائے تو بڑے پیمانے پر بھی مثبت تبدیلی ممکن ہے۔