انسانی کہانیاں عالمی تناظر

خوراک کے عالمی بحران سے لاکھوں بچوں کی زندگیاں خطرے میں

ایتھوپیا میں بچوں کو عالمی ادارہِ خوارک کے تحت سکولوں میں کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔
WFP/Michael Tewelde
ایتھوپیا میں بچوں کو عالمی ادارہِ خوارک کے تحت سکولوں میں کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔

خوراک کے عالمی بحران سے لاکھوں بچوں کی زندگیاں خطرے میں

صحت

اقوام متحدہ کے پانچ اداروں نے 15 ممالک میں غذائی قلت کا سامنا کرنے والے بچوں کو تحفظ دینے کے لیے فوری اقدامات کے لیے کہا ہے۔ یہ ممالک خوراک اور غذائیت کے شدید بحران سے متاثرہ ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

پانچ سال سے کم عمر کے تین کروڑ سے زیادہ بچے جنگوں، موسمیاتی آفات، کووڈ۔19 وباء کے موجودہ اثرات اور رہن سہن کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

Tweet URL

ایسے بچوں کی قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے اور ان کے لیے بچپن کی عام بیماریوں سے اموات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

80 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا بری طرح شکار ہیں جو کم خوراکی کی مہلک ترین قسم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں مناسب مقدار میں خوراک لینے والے بچے کے مقابلے میں موت کا خطرہ 12 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

'بحران مزید بڑھ سکتا ہے'

یہ اپیل اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او)، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر)، اقوام متحدہ میں بچوں کے فںڈ (یونیسف)، عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے جاری کی ہے۔

انہوں ںے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ بچوں میں شدید غذائی قلت سے نمٹنے کے عالمگیر عملی منصوبے پر پیش رفت کی رفتار تیز کریں تاکہ بڑھتے ہوئے بحران کو المیے میں تبدیل ہونے سے روکا جا سکے۔

'ایف اے او' کے ڈائریکٹر جنرل کوا ڈونگ یو نے خبردار کیا ہے کہ اس سال یہ صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ''چھوٹے بچوں، لڑکیوں، حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے لیے صحت مند غذا کی دستیابی، اس کے حصول کی استطاعت اور اس تک رسائی یقینی بنانا ہو گی۔ ہمیں تمام شعبوں میں اکٹھے کام کرتے ہوئے زندگیوں کو تحفظ دینے اور شدید غذائی قلت کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لیے اِسی وقت ہنگامی قدم اٹھانا ہو گا۔''

پانچ ترجیحی شعبے

اس حوالے سے عالمگیر عملی منصوبے کا مقصد متواتر بحرانوں سے بری طرح متاثرہ ممالک کے بچوں میں شدید غذائی قلت کی روک تھام، اس کی نشاندہی اور علاج ممکن بنانا ہے۔ ان ممالک میں افغانستان، برکینا فاسو، چاڈ، جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا، ہیٹی، کینیا، مڈغاسکر، مالی، نائیجر، نائیجیریا، صومالیہ، جنوبی سوڈان، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔

یہ منصوبہ خوراک، صحت، پانی، نکاسی آب اور سماجی تحفظ کے پروگراموں میں ماں اور بچے کو غذائیت کی فراہمی سے متعلق پالیسی میں تبدیلیوں کے ذریعے کثیرشعبہ جاتی طریقہ کار کی ضرورت پوری کرتا اور ترجیحی اقدمات کو واضح کرتا ہے۔

ضروریات بڑھنے کے ساتھ اقوام متحدہ کے اداروں نے پانچ مخصوص اقدامات کا خاکہ پیش کیا ہے جو جنگوں اور قدرتی آفات سے متاثرہ ممالک میں اور ہنگامی حالات میں شدید غذائی قلت پر قابو پانے میں موثر کردار ادا کریں گے۔

تجزیہ، روک تھام، امداد

ان میں بچوں میں شدید غذائی قلت کے تعین سے متعلق تجزیے کو بہتر بنانے، اس مسئلے پر ابتدا ہی میں قابو پانے کے لیے ماؤں اور بچوں کے لیے غذائیت کے حوالے سے باقاعدہ جانچ جیسی ضروری طبی مدد یقینی بنانے اور ہنگامی غذائی امداد کے طور پر غذائیت پر مشتمل خصوصی خوراک متعارف کرانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی نے کہا ہے کہ 'یو این ایچ سی آر' میں ہم غذائی قلت کے بارے میں تجزیے کو بہتر بنانے اور اندرون ملک بے گھر ہونے والوں اور پناہ گزینوں کی آبادیوں سمیت انتہائی غیرمحفوظ ماحول میں رہنے والے بچوں تک یقینی رسائی کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔

شراکت داروں نے کہا کہ ایک مربوط پیکیج کی صورت میں ان اقدامات میں اضافہ غذائی قلت کی روک تھام، علاج اور زندگیوں کو تحفظ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ ''غذائی قلت کا عالمگیر بحران دراصل صحت کا بحران اور ایک موذی چکر بھی ہے۔ غذائی قلت بیماری کو جنم دیتی ہے اور بیماری سے غذائی قلت جنم لیتی ہے۔''

انہوں نے کہا کہ ''غذائی قلت سے بری طرح متاثرہ ممالک میں خاص طور پر خواتین اور بچوں کے لیے صحت بخش خوراک اور غذائیت سے متعلق خدمات تک رسائی یقینی بنانے سمیت بچوں کی زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے فوری مدد درکار ہے۔''