انسانی کہانیاں عالمی تناظر

خواتین کی معاشی خودمختاری بڑھانے کے پانچ طریقے

بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں خواتین کے عالمی دن کا جشن منایا جا رہا ہے۔
© UN Women/Magfuzur Rahman Shan
بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں خواتین کے عالمی دن کا جشن منایا جا رہا ہے۔

خواتین کی معاشی خودمختاری بڑھانے کے پانچ طریقے

خواتین

خواتین کی معاشی ترقی کا دارومدار ان کے لیے مالی وسائل کی فراہمی پر ہے۔ یو این ویمن کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں سرمایہ کاری کی موجودہ رفتار کے ہوتے ہوئے 2030 تک 34 کروڑ سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں بدستور شدید غربت کا شکار رہیں گی۔

آج خواتین کے عالمی دن کا موضوع بھی 'خواتین پر سرمایہ کاری' ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آج کے دن کا موضوع یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ پدرشاہانہ نظام کا خاتمہ کرنے کے لیے مالی وسائل درکار ہیں۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ان کی معاشی نمو کا دارومدار پائیدار ترقی کے لیے مالی وسائل کی فراہمی پر ہے تاکہ ممالک خواتین اور لڑکیوں کی بہتری پر خرچ کر سکیں۔ 

آج ترقی پذیر ممالک کو 2030 تک پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت صنفی عدم مساوات پر قابو پانے کے لیے ہر سال مزید 360 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

انہوں نے خواتین کے خلاف تشدد کا خاتمہ کرنے اور معیشتوں، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، قیام امن اور موسمیاتی اقدامات میں خواتین کی شمولیت و قیادت کو فروغ دینے میں مددگار پروگراموں پر سرمایہ کاری کے لیے زور دیا ہے۔

اگرچہ خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لیے اثاثوں اور مالی وسائل میں ان کے حصے کو بڑھانا اہم ہے لیکن ایسے اداروں کا قیام بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جن کی بدولت سماجی بہتری اور پائیدار ترقی کے لیے سرکاری سطح پر سرمایہ کاری کو فروغ ملے۔ 

ذیل میں پانچ ایسے عوامل کا تذکرہ ہے جو خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے عمل کی رفتار میں تیزی لانے کی ضمانت مہیا کرتے ہیں۔

1۔ وسائل میں اضافہ

خواتین کو مالیاتی وسائل دستیاب ہونے سے انہیں اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل اور کاروبار شروع کرنے یا انہیں ترقی دینے میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم اس وقت خواتین کی ملکیتی نچلے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو مزید 1.7 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کا کاروبار کرنے والی خواتین کو قرضوں کے حصول میں درپیش مشکلات دور کر کے 2030 تک سالانہ آمدنی میں 12 فیصد تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ 

علاوہ ازیں، خواتین کو زمین، اطلاعات، ٹیکنالوجی اور قدرتی وسائل تک رسائی بھی درکار ہے۔ 2022 میں 2.7 ارب خواتین کو انٹرنیٹ تک رسائی نہیں تھی جو کہ روزگار کے حصول یا کاروبار شروع کرنے کے لیے اب بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ 

اگرچہ دنیا میں برسرروزگار خواتین کی ایک تہائی تعداد زرعی شعبے سے وابستہ ہے لیکن 87 فیصد ممالک میں ان کے لیے مردوں کی طرح زمین کی ملکیت یا زرعی اراضی کے حقوق کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں اس حوالے سے اعدادوشمار دستیاب ہیں۔ 

جب خواتین کے پاس وسائل تک رسائی، ان کی ملکیت اور انہیں استعمال کرنے کے مساوی حقوق ہوتے ہیں تو وہ اپنی بہبود و تعلیم بہتر بنا کر، کاروبار شروع کر کے یا اپنی آمدنی کے ذریعے اپنے لیے بہتر معاشرے تعمیر کر کے خود پر سرمایہ کاری کر سکتی ہیں۔ 

مثال کے طور پر کئی تناظر میں خواتین کی معاشی بااختیاری صنفی بنیاد پر تشدد میں کمی لانے، ان کی سیاسی و سماجی شراکت اور قائدانہ کردار بڑھانے اور نقصان کے خدشات کم کرنے میں سہولت دیتی ہے۔

2۔ روزگار اور اختیار

جب خواتین کام میں ترقی کرتی ہیں تو اپنے اختیار سے کام لینے اور اپنے حقوق کے حصول کی بہتر پوزیشن میں ہوتی ہیں۔ تاہم محض کوئی کام یا نوکری کر کے یہ مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ کام کو مفید اور آزادانہ، مساوی، محفوظ اور باوقار ماحول میں ہونا چاہیے۔ 

دنیا بھر میں تقریباً 60 فیصد برسرروزگار خواتین غیررسمی شعبے میں کام کرتی ہیں اور کم آمدنی والے ممالک میں یہ شرح 90 فیصد تک ہے۔ جب خواتین برسرروزگار ہوتی ہیں تو تب بھی انہیں مردوں کے مقابلے میں 20 فیصد کم اجرت ملتی ہے۔ بعض خواتین اس سے بھی کم کماتی ہیں جن میں رنگ دار خواتین اور مائیں بھی شامل ہیں۔ 

آمدنی میں صرف صنفی بنیاد پر عدم مساوات سے ہی دنیا کو عالمی جی ڈی پی کے دو گنا سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ 

اجرتوں میں شفافیت لانے، ایک طرح کے کام کی یکساں اجرت یقینی بنانے اور نگہداشت کی خدمات تک رسائی جیسے اقدامات کے ذریعے کام کی جگہوں پر اجرتوں میں صنفی بنیاد پر فرق کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔جب خواتین کے کاروبار کامیاب ہوتے ہیں تو ان سے روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں اور اختراع کو فروغ مل سکتا ہے۔ 

روزگار میں صنفی بنیاد پر فرق کو ختم کر کے عالمگیر جی ڈی پی میں 20 فیصد تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

نالینی اور پوجا نے سال 2021 میں یو این ڈی پی کی ایک ورکشاپ میں شرکت کے بعد اپنے کاروبار کی بنیاد رکھی۔
UNDP India
نالینی اور پوجا نے سال 2021 میں یو این ڈی پی کی ایک ورکشاپ میں شرکت کے بعد اپنے کاروبار کی بنیاد رکھی۔

3۔ وقت: کام اور زندگی میں توازن

ہر فرد کو اپنی دیکھ بھال کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کام یا نگہداشت کا موجودہ سماجی انتظام حیثیت اور اختیار کے حوالےسے گہری عدم مساوات کا عکاس ہے اور اکثر اوقات اس میں محنت کش خواتین اور لڑکیوں کو استحصال کا سامنا رہتا ہے۔ خواتین بلامعاوضہ دیکھ بھال اور گھر کے کام پر مردوں کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ وقت صرف کرتی ہیں۔ 

بلامعاوضہ دیکھ بھال کے کام میں صنفی فرق عدم مساوات کا بڑا محرک ہے اور اس کے باعث خواتین اور لڑکیوں کے لیے تعلیم، اچھی آمدنی والے کام، عوامی زندگی، آرام اور تفریح کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔

ہر سال دنیا بھر کی خواتین کم از کم 10.8 ٹریلین ڈالر کا بلامعاوضہ کام کرتی ہیں۔ یہ رقم دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کی صنعت کے حجم سے تین گنا زیادہ ہے۔ 

دیکھ بھال کے اس نظام میں تبدیلی لانے سے تین فوائد حاصل ہوں گے۔ اس سے خواتین کو اپنی ذاتی کے لیے وقت میسر آئے گا، دیکھ بھال کے شعبے میں روزگار کے مواقع کھلیں گے اور ضرورت مندوں کے لیے نگہداشت کی خدمات میں اضافہ ہو گا۔اندازے کے مطابق دیکھ بھال کی خدمات کے حوالے سے موجودہ فرق ختم کرنے اور اچھی آمدنی والے کام سے متعلق پروگراموں کو وسعت دینے سے 2035 تک تقریباً 30 کروڑ نوکریاں تخلیق ہوں گی۔ 

4۔ ذاتی تحفظ

خواتین کو اپنے تحفظ کے حوالے سے متعدد خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ ان میں صنفی بنیاد پر تشدد، جنگیں، غذائی عدم تحفظ اور سماجی تحفظ کی کمی خاص طور پر نمایاں ہیں۔ گھر یا کام کی جگہ پر تشدد خواتین کے حقوق کی پامالی ہے اور اس سے ان کی معاشی شمولیت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

خواتین کے خلاف تشدد سے دنیا کو سالانہ 1.5 ٹریلین ڈالر یا عالمگیر جی ڈی پی کے تقریباً دو فیصد کا نقصان ہوتا ہے۔

2022 میں جنگ زدہ ممالک میں رہنے والی خواتین اور لڑکیوں کی تعداد 614 ملین تک پہنچ گئی تھی جو کہ 2017 کے مقابلے 50 فیصد زیادہ ہے۔ ایسے بحرانوں کے باعث پہلے سے موجود معاشی فرق بڑھ جاتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ان حالات میں بلامعاوضہ دیکھ بھال کے کام کا دورانیہ اور یہ کام کرنے والی خواتین کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے۔ بحرانوں سے خواتین میں عدم مساوات بھی بڑھتی ہے، جیسا کہ تارک وطن خواتین کو تشدد کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہوتا ہے۔ 

تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ صنفی اعتبار سے حساسیت پر مبنی سماجی تحفظ کے نظام، جیسا کہ نقد رقم کی فراہمی کی بدولت خواتین میں شرح اموات کم ہو جاتی ہے۔ اس سے معاشی اختیار اور تحفظ کے مابین تعلق کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

5۔ حقوق کی حفاظت

انسانی حقوق خواتین کی معاشی بااختیاری کی بنیاد ہیں۔ غیرمنصفانہ اور پدرشاہانہ معاشی نظام صنفی عدم مساوات کو دوام دیتا ہے اور امتیازی سماجی رسومات اطلاعات، رابطوں، نوکریوں اور املاک تک رسائی کے لیے خواتین کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں۔ 

دنیا بھر میں مردوں کو جو حقوق حاصل ہیں ان میں صرف 64 فیصد ہی خواتین کو میسر ہیں۔ معاشی بااختیاری کے تناظر میں خواتین کے حقوق کو فروغ دینے کے لیے ایسے قوانین اور پالیسیاں اپنائی جانی چاہئیں جن سے خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے اور ان کے خلاف امتیاز کا باعث بننے والے قوانین کا خاتمہ کرنے میں مدد مل سکے۔

خواتین کے معاشی اختیار کی حقیقی قدر کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی بہت بڑی قیمت کا اندازہ لگانا بھی ضروری ہے جو اس اختیار پر رکاوٹوں کے باعث معاشروں اور معیشتوں کو چکانا پڑتی ہے۔ 

خواتین کے انسانی حقوق کے محافظوں کو تحفظ و مدد دینے کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالیوں کے ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے خواتین کے حقوق کی پامالیوں کی تفصیلات جمع کرنا، صنفی حوالے سے اعدادوشمار کا حصول اور خواتین کے حقوق کی وکالت کے مشترکہ پروگراموں کے لیے شراکتیں قائم کرنے کے اقدامات ضروری ہیں۔

خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے احتسابی طریقہ ہائے کار وضع کرنے اور ان پر عملدرآمد کی بھی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں، یہ یقینی بنانا بھی اہم ہے کہ ہر طرح کی فیصلہ سازی میں خواتین کی آواز بھی شامل ہو۔

اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا بھر کی خواتین کو مدد دینے کے کام سے متعلق یہاں مزید جانیے۔