انسانی کہانیاں عالمی تناظر

دنیا کی تئیس کروڑ خواتین جنسی اعضاء کی بریدگی کا شکار

'ایف جی ایم' سے متاثرہ 40 فیصد لڑکیوں اور خواتین کا تعلق غیرترقی یافتہ یا جنگ زدہ ممالک سے ہے جہاں تعلیم و صحت کی خدمات پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔
© UNICEF/Zahara Abdul
'ایف جی ایم' سے متاثرہ 40 فیصد لڑکیوں اور خواتین کا تعلق غیرترقی یافتہ یا جنگ زدہ ممالک سے ہے جہاں تعلیم و صحت کی خدمات پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔

دنیا کی تئیس کروڑ خواتین جنسی اعضاء کی بریدگی کا شکار

خواتین

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بتایا ہے کہ دنیا میں 23 کروڑ سے زیادہ لڑکیاں اور خواتین جنسی اعضا قطع کیے جانے (ایف جی ایم) کے عمل کا نشانہ بن چکی ہیں۔ یہ تعداد 2016 کے مقابلے میں 3 کروڑ یا 15 فیصد زیادہ ہے۔

یونیسف کی جانب سے خواتین کے عالمی دن پر جاری کردہ معلومات کے مطابق 2030 تک پائیدار ترقی کے پانچویں ہدف کے تحت 'ایف جی ایم' کا خاتمہ کرنے کے اقدامات کی رفتار سست اور المناک طور سے بے سمت ہے۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر میں 'ایف جی ایم' کے نئے متاثرین کی تعداد میں کمی کی رفتار کو 27 گنا بڑھانا ہو گا۔

Tweet URL

'ایف جی ایم' خواتین کے جنسی اعضا کو غیرطبی وجوہات کی بنا پر تبدیل یا زخمی کرنے کا عمل ہے جو دنیا کے بہت سے علاقوں میں عام ہے۔ 

پریشان کن رحجان

یونیسف 'ایف جی ایم' کا خاتمہ کرنے کے لیے دنیا بھر کے لوگوں اور رہنماؤں سے صنفی امتیاز اور عدم مساوات سے نمٹنے کی  کوششوں میں اضافہ کرنے کو کہہ رہا ہے۔ اس ضمن میں لڑکیوں کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے فوری سرمایہ کاری، قوانین اور پالیسیوں میں ان کے حقوق کو ترجیح دینا اور قابل اعتماد معلومات کی بنا پر 'ایف جی ایم' کے پھیلاؤ کی بہتر نگرانی جیسے اقدامات شامل ہیں۔

ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہےکہ خواتین کے جنسی اعضا کو قطع کیے جانے سے ان کے جسم کو نقصان پہنچتا ہے، خدوخال بگڑ جاتے ہیں اور ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ 

اس حوالے سے یہ پریشان کن رحجان بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بڑی تعداد میں لڑکیوں کو نوعمری میں اس عمل کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ ان میں بہت سی لڑکیوں کی عمر پانچ برس سے بھی کم ہوتی ہے۔ اس طرح انہیں خطرے سے بچائے جانے کا امکان اور بھی کم رہ جاتا ہے۔ اس خطرناک عمل کا خاتمہ کرنے کی کوششوں کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ 

غریب اور جنگ زدہ ممالک کا مسئلہ

'ایف جی ایم' سے متاثرہ 40 فیصد لڑکیوں اور خواتین کا تعلق غیرترقی یافتہ یا جنگ زدہ ممالک سے ہے جہاں تعلیم و صحت کی خدمات پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔ یہ ممالک وسائل کو صنفی عدم مساوات کے خاتمے پر خرچ کرنے کے بجائے بحرانوں پر قابو پانے کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ 

اگرچہ 'ایف جی ایم' مزید عام نہیں ہو رہا تاہم اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جن ممالک میں یہ رسم موجود ہے وہاں اس کا شکار ہونے والی لڑکیوں کی تعداد باقی دنیا کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

ان کی سب سے بڑی تعداد افریقی ممالک میں پائی جاتی ہے جہاں 14 کروڑ 40 لاکھ لڑکیاں 'ایف جی ایم' کا نشانہ بن چکی ہیں۔ اس کے بعد ایشیا میں ایسی لڑکیوں کی تعداد 8 کروڑ اور مشرق وسطیٰ میں 60 لاکھ ہے

بدلتی سوچ

اگرچہ یہ حوصلہ شکن صورتحال ہے تاہم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پیش رفت بھی ممکن ہے اور 'ایف جی ایم' کے خاتمے کا ہدف اب بھی قابل رسائی ہے۔ 

یونیسف کے مطابق کینیا، سیرالیون اور مصر کی مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ 30 برس میں اس حوالے سے ہونے والی نصف پیش رفت گزشتہ دہائی میں ہی ہوئی ہے۔ 

'ایف جی ایم' کے حوالے سے عالمگیر رحجانات میں بھی تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔ رپورٹ کے مطابق افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے جن ممالک میں یہ رسم عام ہے وہاں تقریباً 400 ملین لوگ یا مجموعی آبادی کا دو تہائی اس عمل کا مخالف ہے۔