انسانی کہانیاں عالمی تناظر

خواتین کی پارلیمانی نمائندگی میں اضافہ پر سست رو پیش رفت

صومالیہ کے ایوان زیریں کی خواتین امیدوار ایک سیاسی مجلس میں شریک ہیں (فائل فوٹو)۔
AMISOM/Fardosa Hussein
صومالیہ کے ایوان زیریں کی خواتین امیدوار ایک سیاسی مجلس میں شریک ہیں (فائل فوٹو)۔

خواتین کی پارلیمانی نمائندگی میں اضافہ پر سست رو پیش رفت

خواتین

2023 میں دنیا بھر کے قومی قانون ساز اداروں میں خواتین کی نمائندگی میں اضافے کے حوالے سے پیش رفت سست رہی جس میں سال بھر صرف 0.4 فیصد ترقی ہوئی۔

اس معاملے میں افریقی ملک روانڈا ایک مرتبہ پھر سرفہرست رہا جہاں ملکی پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی 61.3 فیصد رہی۔ اس کے بعد کیوبا اور نکارا گوا میں یہ شرح بالترتیب 55.7 اور 53.9 فیصد ریکارڈ کی گئی۔علاقائی طور پر براعظم ہائے امریکہ نے سب سے بڑی تعداد میں خواتین کو پارلیمان کی رکنیت دینے کا اعزاز برقرار رکھا جہاں ان کی مجموعی تعداد 35.1 فیصد رہی۔

Tweet URL

بین پارلیمانی یونین (آئی پی یو) کی رپورٹ کے مطابق سال بھر انتخابات اور تقرریوں کے ذریعے ان اداروں میں خواتین کا مجموعی تناسب بڑھ کر 26.9 فیصد تک پہنچ گیا۔ یہ ترقی 2022 میں ہونے والے اضافے کے برابر اور اس سے پچھلے دو برس کے مقابلے میں سست رو تھی جب یہ اضافہ 0.6 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ 

'آئی پی یو' بین الاقوامی ادارہ ہے جو اقوام متحدہ کا حصہ نہیں ہے۔ تاہم سیاسی اختیار اور مزید مشمولہ فیصلہ سازی کے حوالے سے دونوں اداروں کے اہداف اور مقاصد ایک سے ہیں اور وہ اس معاملے میں ممالک کے مابین بات چیت اور تعاون کو فروغ دینے کا کام کرتے ہیں۔ 

'آئی پی یو' کو اقوام متحدہ میں خصوصی حیثیت بھی حاصل ہے جو جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں مبصر کی حیثیت سے شرکت کرنے اور اس کے ساتھ کام کرنے کا مجاز ہے۔

خواتین کا ترک سیاست

گزشتہ برس کے آغاز میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے عہدے سے استعفیٰ دینے اور دوبارہ پارلیمانی انتخاب نہ لڑنے کا اعلان کیا۔ اس سے چند ماہ کے بعد فن لینڈ کی سابق وزیراعظم سانا مارن نے بھی پارلیمانی رکنیت سے مستعفی ہونے اور سیاست کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے علاوہ نیدرلینڈز کی متعدد نمایاں ارکان پارلیمان نے بھی سیاست چھوڑ دی۔ 

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پارلیمانی سیاست چھوڑنے والی بیشتر خواتین رہنماؤں نے کام سے ہونے والی تھکاوٹ اور بڑھتی ہوئی آن لائن ہراسانی کو اس کی وجہ قرار دیا۔ 

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بعض ممالک میں قانون ساز اداروں نے خواتین ارکان کے لیے حفاظتی اقدامات میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ان میں آئس لینڈ کی قومی پارلیمان 'التھنگی'  بھی شامل ہے جس نے خواتین کو غنڈہ گردی اور جنسی و صنفی بنیاد پر ہراسانی سے تحفظ دینے کی حکمت عملی اور لائحہ عمل وضع کیے۔ 

انتخابات میں صنفی مسائل

صنفی مسائل گزشتہ برس انتخابات کے دوران رائے دہندگان کی ترجیحات میں سرفہرست رہے۔ ان میں ایسے ممالک میں خواتین کے تولیدی حقوق سے متعلق مسائل خاص طور پر قابل ذکر ہیں جہاں اسقاط حمل بدستور ایک متنازع مسئلہ ہے۔ 

پولینڈ میں 2020 کے ایک عدالتی فیصلے کے بعد انتخابات میں اس مسئلے کو مرکزی اہمیت حاصل رہی۔ ملک میں اُس وقت کی حکومت نے اس فیصلے کی حمایت کی تھی اور اپنی پالیسیوں اور قانون سازی کی بدولت اسقاط حمل کی سہولت تک رسائی پر کڑی پابندیاں عائد کیں۔

عدالتی فیصلے کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا جس کی قیادت خواتین اور نوجوانوں کے ہاتھ میں تھی۔ 'آئی پی یو' کی رپورٹ کے مطابق یہی مسئلہ انتخابات میں حکمران جماعت کی شکست کا سبب بنا۔

دوسری جانب ارجنٹائن میں اسقاط حمل سے متعلق 2020 میں بنائے جانے والے نرم قوانین کو تبدیل کرنے کے لیے ریفرنڈم کرانے کا وعدہ کرنے والے حاویئر میلائی انتخابات جیت کر صدر منتخب ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق ان کی کامیابی میں مرد رائے دہندگان بالخصوص نوجوانوں کی بھرپور حمایت کا اہم کردار رہا۔