انسانی کہانیاں عالمی تناظر

عالمی سائبر کرائم معاہدہ: انسانی حقوق اور سلامتی کے درمیان کشمکش

سائبر جرائم کئی ٹریلین ڈالر کا دھندہ ہے جس میں 'ڈارک ویب' پر منشیات اور ہتھیاروں کی خریدوفروخت بھی ہو رہی ہے۔
Unsplash/Jefferson Santos
سائبر جرائم کئی ٹریلین ڈالر کا دھندہ ہے جس میں 'ڈارک ویب' پر منشیات اور ہتھیاروں کی خریدوفروخت بھی ہو رہی ہے۔

عالمی سائبر کرائم معاہدہ: انسانی حقوق اور سلامتی کے درمیان کشمکش

جرائم کی روک تھام اور قانون

سائبر جرائم کئی ٹریلین ڈالر کا دھندہ ہے جس میں 'ڈارک ویب' پر منشیات اور ہتھیاروں کی خریدوفروخت ہو رہی ہے، دھوکے باز عناصر لوگوں سے رقم ہتھیا رہے ہیں اور دہشت گرد اپنے حامی تیار کرنے اور جنگجوؤں کو بھرتی کرنے میں مصروف ہیں۔

اقوام متحدہ دنیا بھر میں سائبر جرائم کے بڑھتے ہوئے خطرات کا ادراک کرتے ہوئے ان کی روک تھام کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدے کے لیے کام کر رہا ہے۔ یہ معاہدہ طے پانے کے بعد تمام فریقین اس پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔ معاہدے کی قابل قبول شرائط طے کرنے کے لیے حکومتیں گزشتہ پانچ برس سے گفت و شنید کر رہی ہیں تاہم فی الوقت انہیں اس میں کامیابی نہیں مل سکی۔ 

اس بات چیت کا تازہ ترین دور رواں مہینے ہوا جو معاہدے کے مسودے پر اتفاق رائے کے بغیر ختم ہو گیا۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ تاحال یہ طے نہیں ہو سکا کہ انسانی حقوق کو برقرار رکھتے ہوئے سائبر سلامتی کے خدشات سے کیسے نمٹا جائے۔ 

'ایکسیس ناؤ' کا شمار ان غیرسرکاری اداروں میں ہوتا ہے جو اس بات چیت کا حصہ ہیں۔ یہ ادارہ دنیا بھر میں سائبر جرائم کے خطرات سے دوچار لوگوں کے ڈیجیٹل حقوق کا دفاع کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں اس معاملے پر اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں بات چیت کے موقع پر ادارے کے بین الاقوامی قانونی مشیر اور ایشیائی الکاہل خطے میں پالیسی کے ڈائریکٹر رامن جِٹ سنگھ چیمہ نے یو این نیوز کے کونر لینن کو سائبر جرائم کے بارے میں ادارے کے خدشات سے آگاہ کیا۔

اگر مجوزہ معاہدے کا وسیع طور سے اطلاق مقصود ہو تو اس میں سیاسی جرائم کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
Unsplash/Fly:D
اگر مجوزہ معاہدے کا وسیع طور سے اطلاق مقصود ہو تو اس میں سیاسی جرائم کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

رامن جِٹ سنگھ چیمہ: اس معاہدے کا مقصد بنیادی نوعیت کے سائبر جرائم پر قابو پانا ہے۔ ان میں ایسے جرائم شامل ہیں جو صرف کمپیوٹر کے ذریعے کیے جاتے ہیں اور انہیں 'آن لائن ذرائع پر منحصر جرائم' بھی کہا جاتا ہے۔ کمپیوٹر کے نظام کو ہیک کرنا اور کمپیوٹر نیٹ ورکس کی سکیورٹی کو کمزور کرنا اس کی نمایاں مثال ہیں۔ ایسی سرگرمیوں کو جرم قرار دینا بلاشبہ ریاستوں کی ذمہ داری ہے اور اس حوالے سے ایسا واضح اہتمام ہونا چاہیے جس کی بدولت دنیا بھر کی حکومتیں اس مسئلے پر ایک دوسرے سے تعاون کر سکیں۔ 

اگر اس معاہدے کا وسیع طور سے اطلاق مقصود ہو تو اس میں سیاسی جرائم کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی کسی حکومت یا ریاست کے سربراہ کے بارے میں کوئی منفی تبصرہ کرتا ہے تو سائبر جرائم کے خلاف قانون کے تحت اسے سزا ہو سکتی ہے۔ 

اس معاہدے کے حوالے سے نفاذ قانون کے اداروں کی جانب سے تعاون کے معاملے میں انسانی حقوق سے متعلق کڑے ضوابط لانا ہوں گے کیونکہ اس سے سائبر جرائم کے خلاف کارروائیوں پر لوگوں کا اعتماد قائم ہو گا۔ اگر وسیع تر مسائل کا احاطہ کرنے والا ایسا قانون بنایا جائے جس میں انسانی حقوق کے تحفظ کا اہتمام نہ ہو تو پھر ناصرف انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں بلکہ ایسے جرائم سے متاثرہ لوگوں اور خود حکومتوں کی طرف سے بھی ہر اقدام پر اعتراضات سامنے آئیں گے۔ 

یو این نیوز: اس معاہدے پر جاری بات چیت میں شامل فریقین کی سوچ کیا ہے؟ 

رامن جِٹ سنگھ چیمہ: مذاکرات کاروں کی سوچ کافی سخت ہے۔ یہ بات واضح تھی کہ معاہدے پر بات چیت کا عمل حالیہ اجلاس کے اختتام تک مکمل نہیں ہو گا۔ اسی لیے مذاکرات کا اہتمام کرنے والے سیکرٹریٹ (انسداد منشیات و جرائم کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ) نے بات چیت کو عارضی طور پر روکنے کے لیے ایک قرارداد پیش کی۔ اس میں سیکرٹری جنرل سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ رواں سال کے آخر میں مذاکرات کو آگے بڑھانے میں مدد دیں۔ 

بعض اوقات ہمارا سب سے بڑا خدشہ یہ ہوتا ہے کہ معاہدے کے حوالے سے بعض نکات پر شرکا میں بہت زیادہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ عجلت میں بات چیت کی وجہ سے شرکا کسی طرح کے اتفاق رائے پر پہنچنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے قانونی شرائط کے متن میں خامیوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے خدشات کو بھی نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ 

بعض اوقات جب وزارت انصاف کے حکام اور وکلا مل بیٹھتے ہیں تو وہ انسانی حقوق کے حوالے سے بہت سے خدشات کی پروا کیے بغیر ہی معاہدے کی شرائط اتفاق کر لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ انہیں زیادہ سے زیادہ اختیارات درکار ہوتے ہیں۔ اسی لیے مذاکرات کے دوران تکرار یا سیاست ہمارے لیے کچھ زیادہ پریشانی کا باعث نہیں ہوتی۔ اس کے بجائے ہمیں یہ فکر رہتی ہے کہ کہیں انسانی حقوق اور جائز قانونی ضوابط کو نظرانداز کرتے ہوئے بہت زیادہ اتفاق رائے نہ ہو جائے۔

حکومتیں سلامتی کو لے کر زیادہ سے زیادہ آن لائن اور ڈیجیٹل نگرانی پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
© UNICEF/Elias
حکومتیں سلامتی کو لے کر زیادہ سے زیادہ آن لائن اور ڈیجیٹل نگرانی پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

یو این نیوز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ رواں سال کسی وقت یہ معاہدے طے پا جائے گا؟ 

رامن جِٹ سنگھ چیمہ: میں سمجھتا ہوں کہ ممالک اس حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتے ہیں یا کم از کم اس عمل کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتے۔ تاہم اگر معاہدے کا حتمی مسودہ خاطرخواہ حد تک مفید نہ ہوا تو شاید وہ اس پر دستخط نہ کریں۔ درحقیقت، سول سوسائٹی، صنعت اور تکنیکی ماہرین نے اس بارے میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کا حالیہ متن مقاصد پر پورا نہیں اترتا اور ممالک کو اس پر دستخط نہیں کرنے چاہئیں یا ایڈہاک کمیٹی کو نتائج کی رپورٹ قبول کرنے کے لیے بھی نہیں کہنا چاہیے۔

یہ بات چیت اقوام متحدہ کی نیوز پوڈ کاسٹ 'دی لِڈ از آن' کی تازہ ترین قسط سے لی گئی ہے جو مصنوعی ذہانت اور آن لائن ٹیکنالوجی کی دیگر اقسام کو محفوظ بنانے کی بین الاقوامی کوششوں میں اقوام متحدہ کے کردار کا احاطہ کرتی ہے۔