انسانی کہانیاں عالمی تناظر
یونیسکو کا کہنا ہے کہ اس کی سفارشات پر عمل کر کے مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال سے بچا جا سکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات سے بچنے کی ترکیب

Unsplash/D koi
یونیسکو کا کہنا ہے کہ اس کی سفارشات پر عمل کر کے مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال سے بچا جا سکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات سے بچنے کی ترکیب

ثقافت اور تعلیم

چیٹ جی پی ٹی کے نئے ورژن اور مصنوعی ذہانت کے دیگر ذرائع کو غیرمعمولی تشہیر ملنے سے ایک سال بعد اب حکومتیں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے تعاون سے اس طاقت ور ٹیکنالوجی کے استعمال کو باضابطہ بنانے کی متفقہ کوششیں شروع کر رہی ہیں۔

یونیسکو (اقوام متحدہ کا تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارہ) نے 2021 میں پہلی مرتبہ مصنوعی ذہانت کے اخلاقی اصولوں سے متعلق اپنی سفارشات تیار کی تھیں۔ اس وقت بیشتر دنیا کووڈ۔19 وبا کی صورت میں ایک اور عالمگیر خطرے سے نبرد آزما تھی۔

یونیسکو کی ان سفارشات کو اس کے تمام 194 رکن ممالک نے منظوری دی ہے جو سرکاری و نجی مالی وسائل کو معاشرے کی بہتری کے کاموں میں استعمال کرنے کے حوالے سے ٹھوس رہنمائی مہیا کرتی ہیں۔ 

تب سے اب تک قانون ساز، ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندے یونیسکو کے فورم میں معلومات کے تبادلے اور پیش رفت سے آگاہی کے ذریعے اس رہنمائی کو عملی صورت دینے کے لیے بہت سا کام کرتے چلے آئے ہیں۔

رواں سال فروری کے آغاز میں سلوانیہ میں منعقدہ فورم کے بعد یو این نیوز کے کونر لینن نے اس کے بعض شرکا سے بات کی جنہوں نے اس معاملے میں اب تک ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ ان میں چلی کی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی آئسن ایچیوری، یونیسکو میں مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات سے متعلق شعبے کے سربراہ اراکلی خودیلی اور مائیکروسافٹ میں سٹریٹیجک مصنوعی ذہانت کے اقدامات کے نائب صدر میری سنیپ شامل ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے بھی حال ہی میں حکومتوں، ٹیکنالوجی کی کمپنیوں اور طبی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کی 40 سے زیادہ سفارشات کی روشنی میں اے آئی پر اپنا ہدایت نامہ تیار کیا ہے۔
© WHO/ Fabeha Monir
عالمی ادارہ صحت نے بھی حال ہی میں حکومتوں، ٹیکنالوجی کی کمپنیوں اور طبی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کی 40 سے زیادہ سفارشات کی روشنی میں اے آئی پر اپنا ہدایت نامہ تیار کیا ہے۔

آئسن ایچیوری: چلی ان پہلے ممالک میں شامل تھا جنہوں نے ناصرف ان سفارشات کی منظوری دی بلکہ ان پر عملدرآمد بھی کیا۔ اس حوالے سے ایسا طریقہ کار اختیار کیا گیا جس سے مصنوعی ذہانت کے با اخلاق اور ذمہ دارانہ طور سے استعمال کی ضمانت ملتی ہے۔ اسی لیے جب چیٹ جی پی ٹی مارکیٹ میں آئی اور ہم نے اس پر اعتراضات اٹھتے دیکھے تو اس ٹیکنالوجی سے لاحق مسائل پر قابو پانے کے لیے ہمارے پاس ماہرین کے تحقیقی مرکز اور حکومتی سطح پر صلاحیتیں پہلے سے موجود تھیں۔ ہماری کمپنیاں پہلے ہی مصنوعی ذہانت سے کام لے رہی تھیں اور ہمارے پاس اس کی ضابطہ کاری کے حوالے سے لاحق مسائل کا حل بھی تھا۔ 

گزشتہ ایک سال کے عرصہ میں مصنوعی ذہانت کا استعمال پہلے سے کہیں بڑھ گیا ہے۔ حکومتیں اور ادارے بھی اس ٹیکنالوجی سےکام لینے لگے ہیں۔ اسی لیے ہم نے ایک انتظامی حکم سے ملتا جلتا اقدام کیا جو بنیادی طور پر مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ استعمال سے متعلق ہدایات ہیں۔

لوگوں کو سماجی فوائد فراہم کرنے والے ادارے میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال ایک اہم مثال ہے۔ انہوں نے ایک ماڈل تیار کیا جو یہ اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے کہ کون سے لوگوں کی جانب سے ایسے فوائد مانگے جانے کا امکان بہت کم ہے جو ان کے حق دار ہیں۔ اس کے بعد وہ ایسے لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ٹیکنالوجی کے ذریعے سرکاری شعبے کے کام میں بہتری لانے کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ اس طرح حکومت اور شہریوں کے باہمی تعلق میں انسانی رابطے سرے سے ختم نہیں ہوئے جو کہ بہت اہم بات ہے۔ 

یو این نیوز: آپ کی حکومت شہریوں کو ایسے عناصر سے تحفظ دینے کے لیے کون سے اقدامات کر رہی ہے جو مصنوعی ذہانت کو نقصان دہ کاموں کے لیے استعمال میں لانا چاہتے ہیں؟ 

آئسن ایچیوری: یونیسکو کی سفارشات سے ہمیں مصنوعی ذہانت اور اس سے متعلق ضابطوں کے بارے میں سوچ بچار میں مدد ملی۔ اس ضمن میں ہم سرکاری سطح پر ماہرین سے مشاورت کرتے رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ہم اس حوالے سے مارچ میں ایک مجوزہ قانون کانگریس میں پیش کر سکیں گے۔

ہم اس بارے میں بھی سوچ بچار کرتے رہے ہیں کہ لوگوں کو مصنوعی ذہانت کے حوالے کیسے تربیت دی جا سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ پروگرامنگ کی تربیت ہو بلکہ اس کا مقصد مصنوعی ذہانت کے ماڈل تیار کرنے اور ان سے کام لینے والوں کو سماجی تناظر میں مزید ذمہ دارانہ طریقے سے کام کرنے کے قابل بنانا ہے۔

اس حوالے سے ہمیں ڈیجیٹل تقسیم کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ بہت سے لوگوں کو ڈیجیٹل آلات یا ذرائع تک رسائی نہیں ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانے کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تعاون درکار ہے کہ تمام لوگوں کو ان ذرائع سے فائدہ پہنچے۔

اقوام متحدہ کے سربراہ لندن میں مصنوعی ذہانت پر ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔
UN Photo/Alba García Ruiz
اقوام متحدہ کے سربراہ لندن میں مصنوعی ذہانت پر ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔

ایراکلی خودیلی: ڈیجیٹل تقسیم کو پاٹنا یونیسکو کی سفارشات کا ایک اہم حصہ ہے۔ ادارے کا ایک بنیادی تصور یہ ہے کہ سائنس اور سائنسی ترقی کے فوائد تمام لوگوں میں مساوی طور سے تقسیم ہونے چاہئیں۔ یہ بات مصنوعی ذہانت پر بھی صادق آتی ہے کیونکہ یہ انسانوں کو اپنے سماجی معاشی اور ترقیاتی اہداف کے حصول میں مدد دینے کے حوالے سے بہت بڑے امکانات کی حامل ہے۔

اسی لیے یہ بات اہم ہے کہ جب ہم مصنوعی ذہانت کے بااخلاق طور سے استعمال اور ترقی کی بات کرتے ہیں تو ہماری توجہ محض دنیا کے ایسے حصے پر نہیں ہوتی جو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ترقی یافتہ ہے اور جہاں کمپنیاں ان ذرائع سے بخوبی کام لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہم جنوبی دنیا کے ممالک کے بارے میں بھی سوچتے ہیں جو ٹیکنالوجی میں ترقی کے حوالے سے مختلف مراحل میں ہیں اور ہم مصنوعی ذہانت میں ہونے والی عالمگیر ترقی پر بات چیت میں انہیں بھی شامل کرتے ہیں۔

میری سنیپ: ٹیکنالوجی ایک ایسا ذریعہ ہے جو انسانی مہارت اور صلاحیت کو مزید بہتر نتائج کے حصول کے قابل بنا سکتا ہے یا اسے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ چھاپہ خانے کی ایجاد سے اب تک یہ بات ثابت ہے۔ لہٰذا، ہمارے لیے یہ اہم ہے کہ بحیثیت صنعت ہمیں ٹیکنالوجی کے منفی اثرات پر قابو پانے کا اہتمام کرنا ہے اور ہمیں علم ہونا چاہیے کہ کمپیوٹر کیا کچھ کر سکتا ہے، ٹیکنالوجی کیا کچھ کر سکتی ہے اور اسے کیا نہیں کرنا چاہیے۔

کھل کر بات کی جائے تو سوشل میڈیا کے معاملے میں غالباً ہم نے ایسے مسائل سے نمٹنے کا پیشگی انتظام نہیں کیا تھا۔ اب مصنوعی ذہانت کے حوالے سے ہمارے پاس متحد ہو کر پیشگی اقدامات کا موقع ہے۔ ہمیں اس ٹیکنالوجی کے بے پایاں امکانات کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے لاحق منفی اثرات کو محدود رکھنے کی کوشش کرنا ہے۔

یو این کے ڈیجیٹل ایجنڈے کا مقصد ہے کہ مصنوعی ذہانت سمیت ہر ٹیکنالوجی تمام انسانیت کے لیے یکساں فائدہ مند ہو۔
UN Photo/Elma Okic
یو این کے ڈیجیٹل ایجنڈے کا مقصد ہے کہ مصنوعی ذہانت سمیت ہر ٹیکنالوجی تمام انسانیت کے لیے یکساں فائدہ مند ہو۔

یو این نیوز: سلوانیہ میں ہونے والے یونیسکو کے اجلاس میں مائیکروسافٹ نے مصنوعی ذہانت کو اخلاقی خطوط پر استوار کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس کی عملی وضاحت کیسے ہو گی؟ 

میری سنیپ: 2019 میں ہم نے مصنوعی ذہانت سے ذمہ دارانہ طور پر کام لینے کے لیے بریڈ سمتھ (مائیکرو سافٹ کے صدر) کے ادارے میں ایک دفتر قائم کیا۔ اس دفتر میں ناصرف ٹیکنالوجی کے ماہرین بلکہ انسانی علوم، سماجیات اور بشریات کے ماہرین کو بھی تعینات کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہم ٹیکنالوجی پر حقیقی حملوں جیسی مشق کرتے ہیں اور مصنوعی ذہانت کو نقصان دہ کام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ ان کا توڑ ڈھونڈا جا سکے۔ 

ہمارے لیے یہ بتانا ضروری نہیں کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کیسے کام کرے گی لیکن ہم یہ یقینی بنانے کے خواہاں ہیں کہ انہی اصولوں کو ہمارے کاروباری حریف بھی کام میں لائیں۔ انسانیت کے لیے یہ کام بہتر طور سے انجام دینے میں یونیسکو کے شانہ بشانہ چلنا بہت اہم ہے۔ 

یہ بات چیت اقوام متحدہ کی انگریزی زبان میں نیوز پوڈ کاسٹ 'دی لِڈ از آن' کی تازہ ترین قسط سے لی گئی ہے جو مصنوعی ذہانت اور آن لائن ٹیکنالوجی کی دیگر اقسام کو محفوظ بنانے کی بین الاقوامی کوششوں میں اقوام متحدہ کے کردار کا احاطہ کرتی ہے۔