انسانی کہانیاں عالمی تناظر

موسمیاتی بحران اور جنگیں خوراک کی قلت کا سبب، یو این چیف

مڈغاسکر کی چھیاسٹھ سالہ جینٹ کساوا سے کھانا تیار کر رہی ہیں جبکہ بچے خوراک ملنے کے منتظر ہیں۔
© WFP/Lena von Zabern
مڈغاسکر کی چھیاسٹھ سالہ جینٹ کساوا سے کھانا تیار کر رہی ہیں جبکہ بچے خوراک ملنے کے منتظر ہیں۔

موسمیاتی بحران اور جنگیں خوراک کی قلت کا سبب، یو این چیف

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ دنیا کو جنگوں، موسمیاتی تبدیلی اور غذائی عدم تحفظ کا باہمی تعلق توڑنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے جو بڑھتی ہوئی بھوک کے نمایاں اسباب ہیں۔

ان مسائل سے نمٹنے کے لیے بلائے گئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی ابتری اور غذائی بحران سنجیدہ نوعیت کے مسائل ہیں۔ ان سے عالمی امن و سلامتی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سلامتی کونسل کو ان مسائل پر قابو پانا ہو گا۔

Tweet URL

اس اجلاس کا انعقاد افریقی ملک گنی نے کیا ہے جو رواں ماہ سلامتی کونسل کا صدر ہے۔ کونسل میں ہونے والی اس بات چیت میں تقریباً 90 ممالک کے نمائندے شریک ہیں۔

غزہ میں بھوک

سیکرٹری جنرل نے افسوس کا اظہار کیا کہ بھوک اور جنگوں کے تباہ کن تعلق کی مثالیں دنیا بھر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔   غزہ میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے جہاں کسی کو ضرورت کے مطابق کھانا میسر نہیں۔ دنیا میں سات لاکھ بھوکے ترین لوگوں کی 80 فیصد تعداد کا تعلق اسی چھوٹے سے علاقے سے ہے۔ 

انتونیو گوتیرش نے کہا کہ موسمیاتی حوادث اور ممالک کے مابین تنازعات عدم مساوات کو بڑھاتے، روزگار کو خطرے میں ڈالتے اور لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ عالمگیر غذائی بحران کے دو بڑے اسباب بھی ہیں جس سے 2022 میں تقریباً 174 ملین لوگ متاثر ہوئے تھے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بہت سی جگہوں پر لوگوں کی تکالیف کا ایک اور پہلو ہیں۔ ایسے خطرناک ترین اثرات کا سامنا کرنے والے تمام 14 ممالک ایسے ہیں جنہیں جنگوں کا سامنا ہے۔ ان میں 13 ممالک کو انسانی بحران بھی درپیش ہیں۔ 

خوراک کی قیمتوں میں نیا اضافہ

نہر پانامہ میں پانی کی کمی اور بحیرہ احمر کے خطے میں تشدد کے باعث دنیا بھر میں خوراک کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں اور تجارتی سامان کی ترسیل میں خلل آیا ہے۔ 

ایتھوپیا میں خشک سالی کے بعد جنگ سے متاثرہ تقریباً 16 ملین لوگوں کو غذائی مدد درکار ہے۔ ہمسایہ ملک سوڈان میں جنگ سے جان بچا کر آنے والے پناہ گزینوں کے مسئلے نے حالات کو اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثرہ ممالک میں ہیٹی بھی شامل ہے جہاں سمندری طوفانوں کے علاوہ جتھوں کے تشدد اور لاقانونیت نے لاکھوں لوگوں کی زندگی کو خطرے سے دوچار کر رکھا ہے۔

سیکرٹری جنرل موسمیاتی تبدیلی اور غذائی تحفظ پر سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔
UN Photo/Loey Felipe
سیکرٹری جنرل موسمیاتی تبدیلی اور غذائی تحفظ پر سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔

مسائل کا حل پائیدار ترقی

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایسے حالات پیدا کرنے کی ضرورت ہے جن سے ممالک کے اندر اور ان کے مابین تنازعات حل ہوں اور امن برقرار رکھا جا سکے۔ پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کو حاصل کرنے کے اقدامات کی رفتار میں غیرمعمولی تیزی لانا ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ 

انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے متواتر اخراج سے موسمیاتی بحران شدت اختیار کر رہا ہے اور بھوک بھی سال بہ سال بڑھتی جا رہی ہے۔ 

امدادی کارروائیوں کے لیے مطلوبہ مقدار میں وسائل مہیا کرنا بھی ضروری ہیں تاکہ قدرتی آفات اور تنازعات کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی بھوک پر قابو پایا جا سکے۔ گزشتہ برس امدادی مقاصد کے لیے درکار وسائل کا 40 فیصد سے بھی کم مہیا ہو پایا تھا۔اس وقت  صحت مند، مساوی اور پائیدار غذائی نظام تشکیل دینے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری درکار ہے تاکہ زمین کو کمزور کیے بغیر اسے بہتر بنایا جا سکے۔

موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی ضرورت

سیکرٹری جنرل نے واضح کیا کہ ممالک کو عالمی حدت میں اضافہ 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حدود میں رکھنے کے لیے موسمیاتی بحران پر قابو پانا ہو گا۔ انہوں نے امیر ممالک پر زور دیا کہ وہ معدنی ایندھن کے استعمال کا خاتمہ کرنے میں پہل کریں۔ عالمی برادری کو موسمیاتی مطابقت سے متعلق بھی سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس حوالے سے یہ یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے کہ 2027 تک ہر جگہ تمام لوگوں کو آفات سے بروقت آگاہی دینے کے نظام کی سہولت میسر ہو۔

ایسے دیگر اقدامات میں سماجی تحفظ کے طریقہ ہائے کار وضع کرنا، ان کے لیے مالی وسائل کی فراہمی اور امن و سلامتی کے عالمگیر ڈھانچے کو مضبوط بنانا اور اس کا ازسرنو جائزہ لینا شامل ہیں۔

سیکرٹری جنرل نے ایس ڈی جی کے حصول کے اقدامات کی رفتار بڑھانے کے لیے سالانہ 500 ارب ڈالر فراہم کرنے کی تجویز کا تذکرہ بھی کیا۔ اس کا مقصد غریب ممالک کو پائیدار ترقی اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات میں مدد دینا ہے۔