غزہ، سوڈان، اور کئی دوسرے علاقوں میں قحط کا خطرہ، یو این ادارے
اقوام متحدہ کے اداروں نے بتایا ہے کہ گزشتہ برس 28 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو شدید درجے کی بھوک کا سامنا رہا اور غزہ سے سوڈان تک بہت سے خطوں میں قحط اور بڑے پیمانے پر اموات کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
دنیا میں غذائی بحران کی صورتحال پر تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2023 متواتر پانچواں سال تھا جب غذائی عدم تحفظ کی صورتحال میں پہلے سے زیادہ بگاڑ دیکھا گیا۔ اس دوران 59 ممالک میں 20 فیصد سے زیادہ لوگ شدید درجے کی غذائی قلت کا شکار رہے جبکہ 2016 میں یہ صورتحال 48 ممالک میں پائی گئی تھی جہاں 10 فیصد لوگوں کو اس مسئلے کا سامنا رہا۔
گزشتہ برس 39 ممالک میں تین کروڑ 60 لاکھ افراد کو شدید درجے کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا رہا جو کہ 2022 کے مقابلے میں چار فیصد بڑی تعداد تھی۔ ان میں ایک تہائی سے زیادہ لوگوں کا تعلق افغانستان اور سوڈان سے تھا۔
41 ممالک میں 16 کروڑ 50 لاکھ لوگوں کو بحرانی درجے کا غذائی عدم تحفظ درپیش رہا جبکہ 40 ممالک میں 29 کروڑ 20 لاکھ لوگوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔
جنیوا (سوئزرلینڈ) میں اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) کے رابطہ دفتر کے ڈائریکٹر ڈومینیک برجن نے کہا ہے کہ شدید غذائی عدم تحفظ سے مراد ایسی بھوک ہے جس سے لوگوں کے روزگار اور زندگی کو فوری خطرہ لاحق ہو۔ اس بھوک کے قحط میں تبدیل ہونے اور پھر اس سے بڑے پیمانے پر اموات کا خدشہ ہوتا ہے۔
کووڈ وباء کے اثرات
یہ رپورٹ ایف اے او، اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) اور ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ گزشتہ سال خطرناک حد تک غذائی کمی کا شکار لوگوں کی مجموعی تعداد میں 2022 کے مقابلے میں 1.2 فیصد کمی ہوئی۔ تاہم کووڈ۔19 بحران کے بعد اس مسئلے کی شدت میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
2019 کے آخر میں جب کورونا وائرس پھیلا تو 55 ممالک میں اوسطاً ہر چھ میں سے ایک فرد کو پریشان کن حد تک غذائی عدم تحفظ کا سامنا تھا جبکہ اس سے ایک سال بعد ہر پانچ میں سے ایک فرد اس صورتحال کا شکار ہوا۔
غزہ میں بھوک سے ہلاکتیں
جنیوا میں 'ڈبلیو ایف پی' کی ڈائریکٹر جین کارلو سیری نے کہا ہے کہ گزشتہ سال غذائی بحران میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا اور اس حوالے سے غزہ اور سوڈان کے حالات خاص طور پر مخدوش ہیں جہاں لوگ بھوک سے ہلاک ہو رہے ہیں۔
غزہ میں سات ماہ سے جاری اسرائیلی بمباری کے باعث لوگوں کے لیے انتہائی بنیادی نوعیت کی غذائی ضروریات پوری کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ حالات اس قدر خراب ہیں کہ لوگ خوراک کے لیے بھیک مانگنے، اپنا سامان بیچنے اور کوئی چارہ نہ پا کر مویشیوں کی خوراک کھانے پر بھی مجبور ہیں۔ انتہائی مفلسی کی حالت میں بہت سے لوگ بھوک سے ہلاک ہو رہے ہیں۔
علاقے میں ضرورت کے مطابق خوراک کی روزانہ بنیادوں پر فوری فراہمی یقینی بنانا ہی قحط کو روکنے کا واحد طریقہ ہے۔ اس مقصد کے لیے امدادی عملے اور سامان کی آزادانہ نقل و حرکت اور ضرورت مندوں کی ان تک محفوط رسائی کے لیے حالات کو سازگار بنایا جانا ضروری ہے۔
قحط کا خطرہ سر پر
غزہ کے بارے میں نیا انتباہ غذائی عدم تحفظ کے مسئلے پر ماہرین کے جائزوں سے مطابقت رکھتا ہے جو بتا چکے ہیں کہ مئی 2024 تک غزہ اور خاص طور پر اس کے شمالی علاقوں میں کسی بھی وقت قحط پھیل سکتا ہے۔
جین سیری نے کہا کہ علاقے میں قحط کی صورتحال پیدا ہونے کو ہے اور بچوں میں غذائی قلت بڑھ رہی ہے۔ دو سال سے کم عمر کے تقریباً 30 فیصد بچے خوراک کی شدید کمی یا کمزوری کا شکار ہیں جبکہ شمالی علاقے میں 70 فیصد آبادی کو شدید درجے کی بھوک کا سامنا ہے۔ ایسی معقول شہادتیں موجود ہیں کہ آئندہ چھ ہفتوں میں یہ حالات قحط میں تبدیل ہو جائیں گے۔
سوڈان کے خطرناک حالات
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سوڈان میں گزشتہ برس لڑائی شروع ہونے کے بعد دو کروڑ 30 لاکھ افراد یا ملک کی 42 فیصد آبادی کو ضرورت کے مطابق خوراک کے حصول میں مشکلات کا سامنا رہا۔
رپورٹ کے مطابق، سوڈان میں ہنگامی درجے کے شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے لوگوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ نئی فصل کی کاشت کا موسم شروع ہونے میں چند ہفتے باقی ہیں اور ایسے میں حالات کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے ملک بھر میں انسانی امداد کی فوری فراہمی کی اشد ضرورت ہے۔
ڈومینیک برجن کا کہنا ہے کہ ملکی آبادی کے بیشتر حصے کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔ ان لوگوں کو بروقت زرعی مداخل کی فراہمی ضروری ہے تاکہ وہ نئی فصل اگا سکیں۔ ایسا نہ ہوا تو پھر ملک کو آئندہ برس فصلوں کی کٹائی کے موسم تک بہت بڑے پیمانے پر غذائی مدد کی ضرورت ہو گی۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس جنوبی سوڈان، برکینا فاسو اور مالی کے لوگوں کو بدترین درجے کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا رہا۔ ایتھوپیا سمیت غذائی بحران کا سامنا کرنے والے بعض دیگر ممالک کے حوالے سے معلومات دستیاب نہیں ہیں۔