انسانی کہانیاں عالمی تناظر

خوراک کی عالمی درآمدات ریکارڈ سطح پر جانے کا امکان: ایف اے او

جنگ اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی نے خوراک کی درآمد پر انحصار بڑھا دیا ہے اور اس سے دنیا کے کئی ممالک غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو رہے ہیں۔
FAO/Ami Vitale
جنگ اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی نے خوراک کی درآمد پر انحصار بڑھا دیا ہے اور اس سے دنیا کے کئی ممالک غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو رہے ہیں۔

خوراک کی عالمی درآمدات ریکارڈ سطح پر جانے کا امکان: ایف اے او

پائیدار ترقی کے اہداف

اِس سال دنیا بھر میں خوراک کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات تقریباً 2 ٹریلین ڈالر تک پہنچنے یا سابقہ اندازوں سے زیادہ رہنے کی توقع ہے۔ یہ بات اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف او اے) نے جمعے کو شائع ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں کہی ہے۔

نئی پیش گوئی کے مطابق 1.94 ٹریلین ڈالر کے یہ اخراجات اب تک خوراک کی درآمد پر ادا کی جانے والی سب سے بڑی قیمت ہو گی اور یہ 2021 میں ہونے والی ریکارڈ درآمدات کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہیں۔

فوڈ آؤٹ لُک کی تازہ ترین رپورٹ کےمطابق خوراک کی قیمتیں بڑھنے اور امریکی ڈالر کے مقابلے میں کرنسیوں کی قدر میں کمی کے باعث یہ اضافہ سست رہنے کی توقع ہے۔

'تشویش ناک علامات'

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد دنیا بھر میں خوراک کی قیمتیں بڑھ گئیں لیکن اب ان میں قدرے کمی آئی ہے۔ یہ دونوں ممالک دنیا بھر میں برآمد ہونے والی گندم کا تقریباً 30 فیصد پیدا کرتے ہیں جبکہ دیگر اناج اور متعلقہ غذائی اشیا اس کے علاوہ ہیں۔

اگرچہ دنیا بھر میں خوراک کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات میں ہونے والے اضافے کا بڑا حصہ امیر ممالک ادا کریں گے لیکن خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے غریب ترین ممالک کو غیرمتناسب طور سے متاثر کیا ہے۔

کم آمدنی والے ممالک کے لیے خوراک کی درآمدات پر اٹھنے والے مجموعی اخراجات میں متوقع طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی تاہم اندازہ ہے کہ حجم کے اعتبار سے ان میں 10 فیصد کمی واقع ہو گی جس سے ان ممالک کو خوراک تک رسائی کے معاملے میں بڑھتے ہوئے مسائل کی نشاندہی ہوتی ہے۔

ایف او اے نے کہا ہے کہ ''یہ غذائی تحفظ کے تناظر میں تشویشناک علامات ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ درآمدکنندگان کے لیے بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی قیمتوں کی ادائیگی مشکل ہوتی جا رہی ہے اور ممکنہ طور پر وہ بلند عالمی قیمتوں کے سامنے ٹھہر نہیں سکیں گے۔''

بڑھتا ہوا فرق

فوڈ آؤٹ لُک کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ امیروں اور غریبوں میں موجودہ فرق ممکنہ طور پر مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔

اعلیٰ آمدنی والے ممالک ہر طرح کی غذائی پیداوار خریدتے رہیں گے جبکہ ترقی پذیر دنیا کے ممالک کو بڑی حد تک بنیادی نوعیت کی خوراک پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔

گزشتہ مہینے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کم آمدنی والی ممالک کو ہنگامی مالی مدد کی فراہمی کے لیے ایک نئی 'فوڈ شاک ونڈو' کی منظوری دی۔

ایف اے او نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا اور یہ غریب ممالک کے لیے خوراک کی درآمد پر بڑھتے ہوئے اخراجات کا بوجھ کم کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

زرعی درآمدات

یہ رپورٹیں درآمدہ زرعی اشیا پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ بھی پیش کرتی ہیں۔

اِس سال خوراک کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات میں متوقع اضافہ 50 فیصد یا 424 ارب ڈالر رہنے کی توقع ہے جو 2020 کے مقابلے میں 112 فیصد زیادہ ہو گا۔ توانائی اور کھادوں کی درآمد پر بھاری اخراجات اس کی بڑی وجہ ہیں۔

ایف اے او کا کہنا ہے کہ ''عالمگیر زرعی پیداوار اور غذائی تحفظ پر منفی اثرات ممکنہ طور پر 2023 میں بھی برقرار رہیں گے۔''

اجناس کا معمہ

فوڈ آؤٹ لُک کی رپورٹ ادارے کے منڈی اور تجارت سے متعلق ڈویژن کی جانب سے سال میں دو مرتبہ شائع کی جاتی ہے۔

اس میں اناج، کھانے کے تیل، چینی، گوشت، دودھ کی مصنوعات اور مچھلی جیسی غذائی اشیا کی منڈی کو ترسیل اور ان کے استعمال بارے رحجانات بھی شامل ہوتے ہیں۔

اس وقت ان اشیا کی ترسیل ریکارڈ سطح پر ہے تاہم بہت سے حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں منڈیوں میں غذائی اجناس کی ترسیل قدرے کم رہے گی۔

مثال کے طور کینیڈا اور روس میں اچھی فصل ہونے کے نتیجے میں آئندہ سال گندم کی پیداوار ریکارڈ 784 ملین ٹن تک پہنچنے کی توقع ہے۔

اگرچہ اس سے دنیا بھر میں گندم کے ذخائر میں ریکارڈ اضافہ ہونا چاہیے تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گندم کی زیادہ تر پیداوار چین اور روس میں اکٹھی ہونے جبکہ بقیہ دنیا میں اس کے ذخائر میں آٹھ فیصد تک کمی آنے کی توقع ہے۔