انسانی کہانیاں عالمی تناظر

بچوں کے آن لائن جنسی استحصال کی روک تھام میں عالمی تعاون کی ضرورت

سمارٹ فون اور سوشل میڈیا بچوں کی زندگیوں پر خاصے اثر انداز ہو رہے ہیں اور اس عمل میں بچوں اور نابالغوں کے جنسی استحصال سمیت کئی خطرات سامنے آ رہے ہیں۔
© UNICEF/UN014974/Estey
سمارٹ فون اور سوشل میڈیا بچوں کی زندگیوں پر خاصے اثر انداز ہو رہے ہیں اور اس عمل میں بچوں اور نابالغوں کے جنسی استحصال سمیت کئی خطرات سامنے آ رہے ہیں۔

بچوں کے آن لائن جنسی استحصال کی روک تھام میں عالمی تعاون کی ضرورت

انسانی حقوق

بچوں کی فروخت اور جنسی استحصال پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار نے بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے نئے آن لائن ہتھکنڈے سامنے آنے پر واضح کیا ہے کہ انٹرنیٹ کو بچوں کے لیے محفوظ بنانے کی غرض سے دنیا کے تمام ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ جامع اور بھرپور تعاون کی ضرورت ہے۔

محفوظ انٹرنیٹ کے عالمی دن سے قبل ایک بیان میں خصوصی اطلاع کار ماما فاطمہ سنگھاتے نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم بچوں اور نوعمر افراد کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سے انہیں باہمی مثبت رابطوں، خودمختار انسانوں کی حیثیت سے ترقی کرنے اور اپنی جگہ بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ ٹیکنالوجی ان کی عمر کے حوالے سے غیرمناسب مواد کے پھیلاؤ اور بالغ افراد اور اپنے ساتھیوں کی جانب سے انہیں آن لائن جنسی نقصان پہنچانے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

ماما فاطمہ بچوں کی فروخت اور ان کے جنسی استحصال کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار ہیں۔ انہوں نے زور دیا ہے کہ انٹرنیٹ کی ترقی و ضابطہ کاری اور نئی ڈیجیٹل اشیا کی تیاری میں بچوں کے حقوق کو مرکزی اہمیت دینا ہو گی۔

آن لائن استحصال میں اضافہ

انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل اشیا تک محض رسائی ان سے بچوں اور نوعمر افراد کو ہونے والے فوائد جانچنے کا پیمانہ نہیں ہے۔ 'وی پروٹیکٹ گلوبل الائنس' کے زیراہتمام 2023 میں بچوں کو درپیش آن لائن خطرات کے جائزے اندازہ ہوتا ہے کہ 2019 تک بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق آن لائن مواد میں 87 فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔

متعدد جائزوں، اشاعتوں اور رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کو آن لائن بدسلوکی اور استحصال سے ہونے والے نقصان، انہیں لاحق خطرات کی شدت اور انہیں نقصان پہنچانے کے طریقوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گیا ہے۔ ان میں بچوں سے جنسی بدسلوکی اور ان کے استحصال پر مبنی مواد، انہیں جنسی مقاصد کے لیے تیار کرنا، آن لائن جنسی ہراسانی، بے تکلفانہ لمحات کی تصاویر کے ذریعے بچوں کا استحصال، جنسی تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کر کے رقم اینٹھنا اور ٹیکنالوجی کی مدد سے بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی اور استحصالی مواد کا استعمال شامل ہیں۔ 

نجی شعبے اور ٹیک کمپنیوں کی غیر ذمہ داری

ماما فاطمہ کا کہنا ہے کہ نجی شعبہ اور ٹیکنالوجی کی صنعت اپنے دعووں سے برعکس اس مسئلے سے نمٹنے میں خاطرخواہ حد تک قابل اعتبار ثابت نہیں ہوئے۔ سنگین نوعیت کے پختہ تعصبات، بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی نشاندہی کے لیے پروگرامنگ اور نگرانی کے سافٹ ویئرز میں خامیاں، بچوں سے جنسی بدسلوکی اور ان کے استحصال میں ملوث عناصر کے خلاف کاررروائی میں ناکامی اور ٹیکنالوجی کمپنیوں میں لوگوں کے تحفظ پر مامور ٹیموں اور کارکنوں کی تعداد میں کمی جیسے اقدامات اس کی نمایاں مثال ہیں۔ 

انہوں نے کہا ہے کہ اس معاملے میں عالمی سطح پر سیاسی عزم و ترجیح کے ساتھ آئی سی ٹی اور نئی ٹیکنالوجی کا اشتراک قابل ستائش اقدامات ہیں۔ تاہم ان مسائل سے نمٹنے کے لیے قومی، علاقائی و عالمی سطح پر قوانین سازی و ضابطہ کاری میں انسانی حقوق سے متعلق کئی خدشات بھی سامنے آتے ہیں۔ ضابطہ کاری کے لیے انسانی حقوق، صنف اور بچوں سے متعلق حساسیت پر مبنی طریقہ ہائے کار تشکیل دینے میں ممالک کا ناکافی ارتباط اس حوالے سے خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

مشترکہ اقدامات کی ضرورت

خصوصی اطلاع کار نے واضح کیا کہ ریاستوں اور کمپنیوں کو اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے باہم مل کر کام کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ محفوظ آن لائن ماحول کو فروغ دینے کے لیے ڈیجیٹل اشیا کے حوالے سے اخلاقی ضابطے وضع کرنے میں متاثرہ بچوں اور متعلقہ فریقین کی آواز سننا بھی لازم ہے۔

ماما فاطمہ نے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے سیکرٹری جنرل کے مشاورتی ادارے کو سونپی جانے والی ذمہ داریوں کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس ادارے نے مصنوعی ذہانت کے انتظام و ارتباط کے حوالے سے ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام سے متعلق سفارشات پیش کرنا ہیں۔ ان کا کہنا ہے اس معاملے میں اب تک کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانا ضروری ہے۔

خصوصی اطلاع کار

یہ مطالبہ کرنے والے ماہرین اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے متعین کردہ خصوصی اطلاع کار ہیں جنہیں حقوق کے دیگر آزاد ماہرین کے ساتھ مخصوص موضوعاتی مسائل یا ملکی حالات کی نگرانی کرنے اور ان کی رپورٹ دینے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ 

یہ ماہرین رضاکارانہ اور انفرادی حیثیت میں کام کرتے ہیں اور نہ تو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے کام کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔