انسانی کہانیاں عالمی تناظر

جنوب مشرق ایشیا میں لاکھوں افراد جبراً آن لائن جرائم میں ملوث

 لاگوں کو غیرقانونی جوئے سے کرپٹو فراڈ تک دھوکے پر مبنی بہت سی نفع آور آن لائن سرگرمیاں انجام دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
© Unsplash/John Schnobrich
لاگوں کو غیرقانونی جوئے سے کرپٹو فراڈ تک دھوکے پر مبنی بہت سی نفع آور آن لائن سرگرمیاں انجام دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

جنوب مشرق ایشیا میں لاکھوں افراد جبراً آن لائن جرائم میں ملوث

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر)نے کہا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا میں جرائم پیشہ گروہ لاکھوں لوگوں کو دھوکے پر مبنی ایسی آن لائن سرگرمی میں شرکت پر مجبور کرنے کے لیے تشدد اور بدسلوکی کا نشانہ بنا رہے ہیں جس سے اربوں ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔

'او ایچ سی ایچ آر' نے بتایا ہے کہ میانمار میں کم از کم 120,000 اور کمبوڈیا میں 100,000 افراد ایسی صورتحال میں پھنسے ہو سکتے ہیں جہاں انہیں غیرقانونی جوئے سے کرپٹو فراڈ تک دھوکے پر مبنی بہت سی نفع آور آن لائن سرگرمیاں انجام دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

Tweet URL

عوامی جمہوریہ لاؤ، فلپائن اور تھائی لینڈ کو بھی ایسی سرگرمیوں کے حوالے سے منازل یا عبوری مقامات کی حیثیت سے اہم ممالک میں شمار کیا گیا ہے۔ 

مجرم نہیں متاثرین

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے کہا ہے کہ دھوکے پر مبنی ان سرگرمیوں میں شرکت پر مجبور لوگوں کو ایسے جرائم کرتے وقت غیرانسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ لوگ ایسے جرائم کے ذمہ دار نہیں بلکہ ان کے متاثرین ہیں۔ 

'او ایچ سی ایچ آر' کی تازہ ترین رپورٹ ایسے سائبر جرائم پر روشنی ڈالتی ہے جو ایشیا میں ایک بڑا مسئلہ بن چکے ہیں جبکہ ایسی سرگرمیاں انجام دینے والے بہت سے کارکنوں کو دھوکے سے ان میں شریک ہونے اور انٹرنیٹ پر لوگوں کو ہدف بنانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ 

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایسے کارکنوں کو انسانی حقوق کی بہت سی سنگین پامالیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ تشدد، ناجائز قید، جنسی تشدد اور جبری مشقت جیسی بدسلوکی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ 

ایسی کارروائیوں کے متاثرین میں سے ہر ایک کو اوسطاً 160,000 ڈالر کا دھوکہ دیا جا سکتا ہے اور اس مقصد کے لیے عام طور پر سوشل میڈیا کی غیرمنضبط ایپلی کیشنز کے ذریعے شائستہ تحریریں بھیجی جاتی ہیں۔ 

'او ایچ سی ایچ آر' کے مطابق ان متاثرین کا تعلق پورے آسیان خطے اور چین، ہانگ کانگ، تائیوان، جنوبی ایشیا حتیٰ کہ افریقہ اور لاطینی امریکہ جیسے ممالک سے بھی ہے۔ 

وولکر تُرک نے ممالک سے کہا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے لیے انصاف یقینی بنائیں جن کے ساتھ اس قدر ہولناک زیادتی ہوئی ہے۔ 

متاثرین کے لیے انصاف

اگرچہ ایسے جرائم پر قانونی کارروائی کے لیے علاقائی سطح پر متعدد قانونی طریقہ کار موجود ہیں تاہم 'او ایچ سی ایچ آر' نے کہا ہے کہ ممالک کی جانب سے ان پر عملدرآمد کا فقدان ہے اور جبر کے تحت کرائے گئے جرائم کو اکثر قانونی خلاف ورزی کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔ 

'او ایچ سی ایچ آر' کا کہنا ہے کہ جب متاثرین کو بچا لیا جائے یا وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں تو تب بھی انہیں تحفظ فراہم کرنے اور انہیں درکار بحالی اور ازالے تک رسائی دینے کے بجائے اکثر انہیں مجرم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے یا امیگریشن سے متعلقہ سزائیں دی جاتی ہیں۔ 

وولکر تُرک نے کہا ہے کہ اس مسئلے سے متاثرہ تمام ممالک کو انسانی حقوق مضبوط کرنے اور حکمرانی و نفاذ قانون میں بہتری لانے کے لیے سیاسی ارادہ پیدا کرنا ہو گا اور اس سلسلے میں بدعنوانی پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ اور پائیدار کوششوں کی بھی ضرورت ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ایسے کُلی طریقہ کار سے ہی مجرموں کو ملنے والی چھوٹ کا خاتمہ اور اس قدر ہولناک انداز میں بدسلوکی کا نشانہ بننے والے لوگوں کے لیے تحفظ اور انصاف کی یقینی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے۔