انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ناکافی حجاب پر خواتین سے طالبان کی بدسلوکی پر تشویش

افغانستان میں بے گھر خواتین اقوام متحدہ کی ایک اہلکار سے ملاقات کر رہی ہیں۔
© UNOCHA/Charlotte Cans
افغانستان میں بے گھر خواتین اقوام متحدہ کی ایک اہلکار سے ملاقات کر رہی ہیں۔

ناکافی حجاب پر خواتین سے طالبان کی بدسلوکی پر تشویش

خواتین

انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے غیرجانبدار ماہرین نے افغانستان میں لباس سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی پر خواتین اور لڑکیوں کی گرفتاریوں، قید اور ان سے بدسلوکی کے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

جنوری کے اوائل سے ایسے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے کو  ملا ہے۔

طالبان حکام کی جانب سے خواتین کے خلاف ایسی کارروائیاں ابتداً مغربی کابل میں شروع ہوئیں جہاں ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اکثریت ہے۔ یہ لوگ سالہا سال سے شدت پسندوں کے تشدد کا ہدف رہے ہیں لیکن اب ان کی بڑی تعداد تاجک آبادی والے علاقوں اور بامیان، بلغان، بلخ، داخوندی اور قندوز جیسے صوبوں میں بھی پھیل چکی ہے۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے مقرر کردہ ماہرین نے ملکی حکام سے کہا ہے کہ وہ حقوق سے متعلق افغانستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کا پاس کریں۔ اس میں خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیازی سلوک کے خاتمے کا کنونشن بھی شامل ہے۔

گرفتاریاں، تشدد اور قید تنہائی

حالیہ دنوں افغانستان میں مناسب طریقے سے حجاب نہ اوڑھنے کے الزام میں بازاروں اور سکولوں سمیت عوامی مقامات پر ہونے والی کارروائی میں متعدد خواتین اور لڑکیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ 

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کے مطابق بعض خواتین اور لڑکیوں کو زبردستی پولیس کی گاڑیوں میں بٹھایا گیا، انہیں غیرقانونی حراست میں رکھا گیا اور وکیل کی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ایسی خواتین اور لڑکیوں کو پولیس تھانوں میں ایسی جگہوں پر قید کیا گیا جہاں گنجائش سے کہیں زیادہ لوگ موجود تھے۔ انہیں دن میں ایک ہی مرتبہ کھانا مہیا کیا گیا اور بعض کو جسمانی تشدد، دھمکیوں اور دہشت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

مئی 2022 میں طالبان حکام نے تمام خواتین کو عوامی مقامات پر 'مکمل حجاب' لینے اور ترجیحی طور پر برقع اوڑھنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے مرد رشتہ داروں کو پابند کیا گیا وہ اس حکم پر عملدرآمد کرائیں وگرنہ انہیں سزا کا سامنا کرنا پڑےگا۔ 

ان خواتین اور لڑکیوں کی رہائی کے لیے ان کے اہلخانہ اور برادری کے سرکردہ افراد سے تحریری ضمانت مانگی جاتی ہے کہ وہ مستقبل میں ان سے لباس کے ضابطوں کی پابندی کرائیں گے۔ 

اگرچہ گرفتار کی گئی بعض خواتین کو چند گھنٹوں کے بعد رہا کر دیا گیا لیکن ان میں ایسی بھی تھیں جنہیں کئی روز یا ہفتوں تک قید کاٹنا پڑی۔ شفافیت اور انصاف تک رسائی کے فقدان کے باعث قید تنہائی میں موجود خواتین کی اصل تعداد جاننا مشکل ہے۔

طالبان نے خواتین کے این جی اوز کے لیے کام کرنے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔
UN Afghanistan
طالبان نے خواتین کے این جی اوز کے لیے کام کرنے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔

پریشان کن رحجان

ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کو ان کے لباس کی وجہ سے سزا دینے کے علاوہ اس فیصلے کا اختیار مردوں کے پاس ہونا ان خواتین کے حق اور اختیار کی پامالی ہے کہ وہ کیا پہنیں گی۔ ایسے اقدامات خواتین اور لڑکیوں کے خلاف امتیازی سلوک اور انہیں منظم طور سے زیرنگیں رکھنے کے مترادف ہیں جن سے معاشرے میں ان کے لیے جگہ اور بھی تنگ ہو رہی ہے۔ 

گزشتہ مہینے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2023 کی آخری سہ ماہی میں ہزاروں افغان خواتین کو اپنی نوکریاں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور انہیں بنیادی خدمات تک رسائی سے محروم رکھا گیا۔

ان خواتین کی گرفتاری مانع حمل گولیوں کی خریداری، طبی مراکز میں کام کرنے اور عوامی مقامات پر محرم کے بغیر موجودگی کے باعث عمل میں آئی۔ اطلاعات کے مطابق، حکام کا کہنا ہے کہ غیرشادی شدہ خواتین کے لیے نوکری کرنا غیرمناسب ہے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین

ان ماہرین کا تقرر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے کیا ہے جو کسی ملک میں حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیتے اور اپنی رپورٹ دیتے ہیں۔ یہ ماہرین خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کے بارے میں بھی اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔ 

یہ ماہرین رضاکارانہ اور انفرادی حیثیت میں کام کرتے ہیں جو نہ تو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ ہیں اور نہ ہی اپنے کام کا کوئی معاوضہ لیتے ہیں۔