انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پاکستان میں گھر سے کام کرنے والوں کے حقوق کی جدوجہد

گھر سے کام کرنے والی کارکن خواتین عروسی لباس کی کڑھائی میں مصروف ہیں۔
LEF Pakistan
گھر سے کام کرنے والی کارکن خواتین عروسی لباس کی کڑھائی میں مصروف ہیں۔

پاکستان میں گھر سے کام کرنے والوں کے حقوق کی جدوجہد

انسانی حقوق

پاکستان میں غیررسمی شعبے کے محنت کشوں کی 74 فیصد تعداد خواتین پر مشتمل ہے جنہیں صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کے حق تک رسائی دینے کے لیے آگاہی، تربیت اور حکومتی سطح پر منصوبہ بندی درکار ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سمیت کئی طرح کے مسائل ان خواتین کی زندگی کو متاثر کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ ان کی صحت، پیداواری صلاحیت اور رہن سہن کے حالات میں تنزلی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ 

یہ بات پاکستان میں غیرسرکاری ادارے ہوم نیٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اُم لیلیٰ اظہر نے یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ 

ہوم نیٹ 'گلوبل کولیشن آف سول سوسائٹی آرگنائزیشنز' کا حصہ ہے جسے صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کے انسانی حق کی ترویج پر اقوام متحدہ نے 2023 میں انسانی حقوق کا عالمی ایوارڈ دیا ہے۔

ایک خاتون کارکن گھر سے زیورات تیار کر رہی ہیں۔
LEF Pakistan
ایک خاتون کارکن گھر سے زیورات تیار کر رہی ہیں۔

ماحول اور صحت کے مسائل 

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں غیررسمی شعبے سے منسلک بڑی تعداد میں خواتین کارکنوں کو ایسے ماحول میں کام کرنا پڑتا ہے جسے صاف، صحت مند اور پائیدار نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں جہاں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا کردار ہے، وہیں ملک کے معاشی حالات کی خرابی بھی اس کی بڑی وجہ ہے۔ 

پاکستان میں موسم گرما کے دوران بجلی اور سرما میں قدرتی گیس کی لوڈ شیڈنگ رہتی ہے۔ اس طرح ان خواتین کو اکثر شدید گرمی اور سخت سردی میں کام کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں انہیں جلد اور آنکھوں کے مسائل، پانی سے پھیلنے والے امراض، جسمانی کمزوری اور شدید موسمی کیفیات سے لاحق ہونے والی دیگر بیماریوں کا خطرہ رہتا ہے۔ 

چونکہ محنت کش کا روزگار اس کی صحت سے جڑا ہوتا ہے، اس لیے صحت خراب ہونے سے ان کے لیے مالی مواقع کم یا ختم ہو جاتے ہیں۔ 

اُمِ لیلیٰ نے کہا کہ غیررسمی شعبے کی محنت کش خواتین کے لیے یہ آگاہی ضروری ہے کہ صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول ان کے لیے کتنا اہم ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ شہری منصوبہ بندی میں اس حق کو مرکزی اہمیت دے۔

نامناسب حالاتِ کار

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں محنت کے غیررسمی شعبے کے لیے عالمی ادارہ محنت کی رہنمائی میں ہونے والی قانون سازی سے مزدور خواتین کے معاشی و ماحولیاتی حقوق کو تحفظ ملا ہے، جس میں سول سوسائٹی کا کردار بھی نمایاں رہا ہے۔ 

اس سے پہلے غیررسمی شعبے کے محنت کشوں کو نہ تو مزدور کا درجہ حاصل تھا اور نہ ہی ان کی رجسٹریشن ہوتی تھی۔ آجر ان سے معاہدے کے بغیر کام لیتے تھے، اجرت کے معاملے پر ان کا استحصال کیا جاتا تھا اور انہیں سوشل سکیورٹی تک رسائی بھی نہیں تھی۔ 

خواتین محنت کشوں کو بیماری اور زچگی کے دوران تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں دینے کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ انہیں شدید موسمی کیفیات میں مناسب سہولیات کے بغیر کام کرنا پڑتا تھا اور دوران ملازمت کسی حادثے کی صورت میں بھی ان کی کوئی مدد نہیں ہوتی تھی۔ 

معاشی حقوق اور قانونی تحفظ

اب چاروں صوبوں میں متعارف کرائے گئے قوانین (ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ) کے تحت انہیں باقاعدہ مزدور تسلیم کر لیا گیا ہے۔ حکومت نے ان کی بہبود کے لیے صوبائی سطح پر ورکرز ویلفیئر فنڈ قائم کیا ہے۔ ایکٹ کے ضوابط طے ہو جانے کے بعد ان کی کم از کم اجرت بھی مقرر کی جائے گی۔ 

ان قوانین کے تحت اب غیررسمی شعبے کی محنت کش خواتین کو آجر کے ساتھ تحریری معاہدہ کرنے، چھٹیوں اور صحت کے لیے سازگار ماحول میں کام کرنے کا حق مل گیا ہے۔ انہیں سوشل سکیورٹی بھی میسر آئی ہے، وہ افرادی قوت کا باقاعدہ حصہ بننے جا رہی ہیں، اور اپنے حقوق کے لیے عدالت سے بھی رجوع کر سکتی ہیں۔ 

انہوں نےکہا کہ اس قانون سازی کی بدولت ملک میں پائیدار ترقی کے پانچویں ہدف کے حصول میں بھی مدد ملے گی جو خواتین کے لیے مساوی معاشی مواقع اور بہتر حالات کار کا تقاضا کرتا ہے۔

پاکستانی قانون ’ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ‘ کے تحت انہیں گھروں سے کام کرنے والے افراد کو باقاعدہ مزدور تسلیم کیا گیا ہے۔
HomeNet Pakistan

اتحاد کا اعزاز 

اُم لیلیٰ نے بتایا کہ اس معاملے میں ان کے ادارے ہوم نیٹ نے قومی و صوبائی سطح پر پالیسی مرتب کرنے اور قانون سازی کے ہر مرحلے پر حکومت کو رہنمائی اور مدد مہیا کی ہے۔ 

غیررسمی شعبے کے محنت کشوں کی یونین سازی کے بارے میں سوال پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ایسی پہلی یونین 2014 میں ہوم نیٹ نے ہی قائم کی تھی۔ اب ایسی کئی یونین کام کر رہی ہیں اور ان کی فیڈریشن بھی بن چکی ہے۔ اس طرح غیررسمی شعبے کے کارکنوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے موثر پلیٹ فارم میسر آیا ہے۔ 

انہوں نے گلوبل کولیشن آف سول سوسائٹی آرگنائزیشن کو اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کا ایوارڈ دیے جانے کو پاکستان کی ان تمام تنظیموں کے لیے قابل فخر قرار دیا جو اس کا حصہ ہیں۔ اس اتحاد میں ہوم نیٹ کے علاوہ پاکستان کی چار دیگر غیرسرکاری تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ 

اُم لیلیٰ نے کہا کہ صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کے حق تک رسائی کے لیے سول سوسائٹی کی تنظیموں کا اتحاد بہت اہم ہے۔ جب ایسی تنظیمیں کسی نیٹ ورک کا حصہ بنتی ہیں تو ان کا کام زیادہ مؤثر ہوجاتا ہے۔