معاشی ابتری سے کم آمدنی والے ممالک میں روزگار کے امکانات متاثر

عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) نے خبردار کیا ہے کہ شدید مہنگائی اور بلند ہوتی شرح سود کے باعث بڑھتے قرضوں نے ترقی پذیر ممالک میں نوکری کے خواہاں افراد کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
آئی ایل او نے 'کام کی دنیا کی نگرانی' کے عنوان سے اپنی نئی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اگرچہ اچھی آمدنی والے ممالک میں کام کے خواہاں صرف 8.2 فیصد لوگ بے روزگار ہیں تاہم کم آمدنی والے ممالک میں یہ شرح 21 فیصد سے زیادہ ہے یا ہر پانچ میں سے ایک فرد کو روزگار میسر نہیں ہے۔
قرض کی احتیاج کا سامنا کرنے والے کم آمدنی والے ممالک اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جہاں کام کے خواہاں ہر چار میں سے ایک فرد کو محفوظ روزگار دستیاب نہیں ہے۔
'آئی ایل او' میں روزگار اور سماجی تحفظ کے شعبے کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل میا سیپو نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر بیروزگاری کی شرح وبا سے پہلے کی سطح سے نیچے آنے کی توقع ہے اور اندازہ ہے کہ 2023 میں یہ شرح 5.3 فیصد رہے گی جو کہ 191 ملین لوگوں کے برابر ہے۔
تاہم کم آمدنی والے ممالک خصوصاً افریقہ اور عرب خطے میں اس سال بیروزگاری میں اس قدر کمی آنے کا امکان نہیں ہے۔
انہوں ںے کہا کہ 2023 میں عالمی سطح پر نوکریوں کا فرق یعنی نوکری کے خواہاں بے روزگار افراد کی تعداد 453 ملین تک پہنچنے کی توقع ہے اور خواتین اس صورتحال سے مردوں کے مقابلے میں 1.5 گنا زیادہ متاثر ہوں گی۔
اقوام متحدہ کے ادارے نے مزید بتایا ہے کہ افریقہ میں افرادی قوت کی منڈی وبا میں انتہائی بری طرح متاثر ہوئی ہے جس سے اس براعظم میں بحالی کی سست رفتار کی وضاحت ہوتی ہے۔
'آئی ایل او' نے واضح کیا ہے کہ امیر ممالک سے برعکس افریقہ بھر میں قرض کی احتیاج اور مالیات و پالیسی کے حوالے سے انتہائی محدود گنجائش کا مطلب یہ ہے کہ افریقہ میں چند ہی ممالک معاشی بحالی کے لئے جامع پیکیج مہیا کر سکتے ہیں۔
میا سیپو نے کہا کہ لوگوں کے روزگار کے امکانات میں بہتری لائے بغیر موثر معاشی و سماجی بحالی ممکن نہیں ہو گی۔ بیروزگار ہو جانے والے لوگوں کے سماجی تحفظ پر سرمایہ کاری بھی اتنی ہی زیادہ اہم ہے جو کم آمدنی والے ممالک میں عموماً ناکافی ہوتی ہے۔
ادارے کی تحقیق کے مطابق سماجی تحفظ میں اضافے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی پینشن کو وسعت دینے سے کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں فی کس مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) میں ایک دہائی کے دوران تقریباً 15 فیصد اضافہ ہو گا۔
ایسے اقدامات کی سالانہ لاگت جی ڈی پی کے تقریباً 1.6 فیصد کے قریب ہو گی جو کہ "بڑی لیکن قابل استطاعت سرمایہ کاری" ہے۔ انہوں ںے تجویز پیش کی کہ یہ رقم سماجی مدد، محصولات اور بین الاقوامی امداد کے ذریعے اکٹھی کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "سماجی تحفظ پر سرمایہ کاری سے معاشی فائدہ ہوتا ہے۔"
میا سیپو کا کہنا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک میں سماجی سرمایہ کاری کے لئے مالی گنجائش تخلیق کرنے کی ضرورت کو "بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچے میں اصلاح کے لئے جاری عالمی بات چیت میں ہنگامی بنیاد پر زیرغور لایا جانا چاہئیے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ رپورٹ میں آئندہ بیروزگاری کے حوالے سے جس فرق کی نشاندہی کی گئی ہے وہ تشویش ناک ہے لیکن یہ ناگزیر نہیں۔ نوکریوں اور سماجی تحفظ پر درست سمت میں مرکوز اقدامات سے ایسی بحالی اور تعمیر نو میں مدد مل سکتی ہے جس سے سبھی کو فائدہ ہو گا۔
میا سیپو نے معاشی اعتبار سے انتہائی بدحال لوگوں کو تحفظ دینے کے لئے "افرادی قوت کی منڈی کے لئے مربوط اور معلومات پر مبنی پالیسیوں" کی تیاری کے لئے بہتر صلاحیت پیدا کرنے کو کہا۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس سلسلے میں افرادی قوت کی صلاحیتوں میں اضافے اور انہیں نئی صلاحیتوں سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے تاکہ اسے "کام کی ماحول دوست اور مزید ڈیجیٹل دنیا" کے لئے تیار کیا جا سکے۔