انسانی کہانیاں عالمی تناظر
انڈونیشیا کا ایک کسان خشک سالی سے متاثرہ اپنے زرعی زمین سے گزر رہا ہے۔

موسمیاتی بحران کے پیش نظر یو این چیف کا کاپ28 سے ایکشن کا مطالبہ

© UNICEF/Ulet Ifansasti
انڈونیشیا کا ایک کسان خشک سالی سے متاثرہ اپنے زرعی زمین سے گزر رہا ہے۔

موسمیاتی بحران کے پیش نظر یو این چیف کا کاپ28 سے ایکشن کا مطالبہ

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ عالمی حدت میں غیرمعمولی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے اور 'کاپ 28' کانفرنس میں جمع ہونے والے عالمی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ دنیا کو اس سنگین مشکل سے نکالیں۔

ان کا کہنا ہے کہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے لیے 2015 میں پیرس موسمیاتی معاہدے میں طے کیے جانے والے اہداف کا حصول اب بھی ممکن ہے۔

انہوں نے یہ بات دبئی میں آج شروع ہونے والی موسمیاتی کانفرنس 'کاپ 28' سے قبل عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کی ایک رپورٹ کے اجرا پر اپنے ویڈیو پیغام میں کہی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ2023  اب تک کا گرم ترین سال ہو گا جس میں عالمی حدت قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.4 ڈگری سیلسیئس تک بڑھی ہے۔ 

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ دنیا موسمیاتی انہدام کا مشاہدہ کر رہی ہے اور اس کے اثرات تباہ کن ہیں۔

جنوبی امریکہ کے پینٹاگونین برفابی علاقے میں گلیشیئر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
UN News/Nargiz Shekinskaya

پگھلتے گلیشیئر، بڑھتے سمندر

حالیہ دنوں سیکرٹری جنرل نے عالمی حدت سے بری طرح متاثر ہونے والے براعظم انٹارکٹکا اور جنوبی ایشیا کے ملک نیپال کا دورہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ برف کی سطح میں ہونے والی ریکارڈ کمی اور گلیشیئر پگھلنے کی تیز رفتار کو دیکھ کر وہ مستقبل کے بارے میں سنگین خدشات سے دوچار ہیں۔ 

'ڈبلیو ایم او' کی رپورٹ کے مطابق رواں سال قطب جنوبی میں موسم سرما کے دوران برف کی مقدار قبل ازیں کم از کم مقدار کے ریکارڈ سے بھی دس لاکھ مربع کلومیٹر کم رہی۔

ادارے کا کہنا ہے کہ شمالی امریکہ کے مغربی حصے اور یورپی الپس میں بھی برف کے پگھلاؤ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ سمندری حدت میں متواتر اضافے، گلیشیئروں اور برفانی تہوں کے پگھلنے سے سطح سمندر میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ 

گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں متواتر اضافہ

'ڈبلیو ایم او' نے واضح کیا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 50 فیصد اضافہ اور اس کی فضا میں طویل عرصہ تک موجودگی کا مطلب یہ ہےکہ آنے والے بہت سے سالوں میں بھی حدت بڑھتی رہے گی۔ 

ادارے کے سربراہ پیٹری ٹالس کا کہنا ہے کہ یہ محض اعدادوشمار نہیں ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ یہی صورتحال برقرار رہی تو موجودہ اور آئندہ صدیوں میں کرہ ارض کا ماحول تیزی سے ناقابل رہائش ہوتا چلا جائے گا۔ 

فضا میں گرمی کو جذب کرنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائترس آکسائیڈ کی مقدار بھی گزشتہ برس ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی تھی جس میں رواں سال بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 

موسمیاتی تبدیلی کے سنگین نتائج

انتونیو گوتیرش کا کہنا ہے کہ سال بھر دنیا کےلوگ شدید موسمی اثرات جھیلتے رہے اور انہیں غذائی عدم تحفظ اور بے گھری جیسے مسائل کا سامنا رہا۔ عالمی حدت جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے عالمی رہنماوں میں سنسنسی کی لہر دو دوڑ جانی چاہیے اور انہیں موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ 

'ڈبلیو ایم او' کی رپورٹ میں اس سال لیبیا میں ہلاکت خیز سمندری طوفان ڈینیئل سےلے کر شاخ افریقہ میں پانچ سال متواتر خشک سالی کے بعد آنے والے تباہ کن سیلاب اور کینیڈا میں جنگلوں کی آگ سے پیدا ہونے والی آلودگی کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کیسے ان واقعات نے انسانی زندگیوں، صحت اور روزگار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

معدنی ایندھن کے خاتمے کی ضرورت 

سیکرٹری جنرل نے حکومتوں سے کہا ہے کہ کہ وہ مل بیٹھیں اور موسمیاتی اقدامات کے آئندہ مرحلے اور ان پر عملدرآمد کے لیے سرمایہ کاری کے حوالے سے اپنے واضح فیصلوں کی بابت آگاہ کریں۔

انہوں نے دنیا بھر کے ممالک سے اس مطالبے کا اعادہ کیا کہ انہیں قابل تجدید توانائی کے ذرائع میں تین گنا اور اس کی استعداد میں دو گنا اضافہ اور معدنی ایندھن کا بتدریج خاتمہ کرنا ہو گا۔

انسانوں کا تحفظ 

سیکرٹری جنرل نےکہا کہ ترقی یافتہ مالک کو چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سالانہ 100 ارب ڈالر کی فراہمی کا وعدہ پورا کریں جو پہلی مرتبہ 2009 میں کاپ '15' کے موقع پر کیا گیا تھا۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے مالی وسائل میں اضافہ کرنے کو بھی کہا۔

انہوں نے ممالک کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو موسمیاتی ابتری سے تحفظ دینے کے لیے مزید اور تیز تر اقدامات کریں۔

ایسے اقدامات میں 2027 تک دنیا کے ہر فرد کو شدید موسمی واقعات کے خلاف بروقت انتباہ کے نظام کی سہولت دینا اور سیلاب، خشک سالی و دیگر موسمیاتی آفات سے متاثر ہونے والے ممالک کو نقصان اور تباہی کے ازالے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی بھی شامل ہے۔

مندوبین کاپ28 میں شرکت کے لیے پہنچ رہے ہیں۔
© UNFCCC

کاپ 28

30 نومبر تا 12 دسمبر دبئی میں ہونے والی موسمیاتی کانفرنس اس مسئلے پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) کے حکومتی فریقین کا سالانہ اجلاس ہے۔ اس کا آغاز 1994 سے ہوا تھا۔ 

'کاپ 28' کانفرنس میں پہلی مرتبہ یہ جائزہ لیا جانا ہے کہ دنیا نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے، موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے اور اس مسئلے سے بری طرح متاثرہ غریب ممالک کی مدد کے لیے اب تک کیا کچھ کیا ہے۔

کانفرنس میں تمام نگاہیں اسی جائزے پر مرکوز ہوں گی جو اس بات کا پتا دے گا کہ دنیا پیرس معاہدے میں کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد کے معاملے میں کہاں کھڑی ہے۔ اس سے یہ جاننے میں بھی مدد ملے گی کہ دنیا کے ممالک مزید پرعزم اور تیز رفتار موسمیاتی اقدامات کے لیے ان وعدوں کو پورا کرنے میں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔

اس کانفرنس میں 60 ہزار سے زیادہ لوگوں کی شرکت متوقع ہے جن میں 'یو این ایف سی سی سی' کے رکن ممالک کے نمائندے، صنعتی شعبے کی شخصیات، نوجوان کارکن اور قدیمی مقامی لوگوں کے نمائندے، صحافی و دیگر شامل ہیں۔