انسانی کہانیاں عالمی تناظر

کاپ28: بہتری کے لیے خواتین اور تحفظ ماحول کے حمایتیوں کی مشترکہ کاوش

موسم اور صنف کے موضوع پر مباحثے میں شریک سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور دوسرے شرکاء کا گروپ فوٹو۔
© COP28/Christophe Viseux
موسم اور صنف کے موضوع پر مباحثے میں شریک سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور دوسرے شرکاء کا گروپ فوٹو۔

کاپ28: بہتری کے لیے خواتین اور تحفظ ماحول کے حمایتیوں کی مشترکہ کاوش

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس 'کاپ 28' میں خواتین و لڑکیوں پر موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات میں کمی لانے اور اس معاملے میں صنفی تفریق کو ختم کرنے کے لیےآواز بلند کی جا رہی ہے۔

متنوع منظر کی حامل خواتین رہنما اور ماحولیاتی کارکن کانفرنس میں شریک فیصلہ سازوں پر ایسی موسمیاتی پالیسیاں بنانے کے لیے زور دے رہی ہیں جن سے ان کی مخصوص ضروریات کی تکمیل ممکن ہو سکے۔ یہ خواتین عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ موثر موسمیاتی اقدامات کے لیے ان کے منفرد علم اور مہارت سے بھی کام لیا جائے۔ 

صنفی تفریق پر مبنی رسوم و رواج، عدم مساوات اور فیصلہ سازی میں غیرمساوی نمائندگی کے باعث خواتین کو موسمیاتی مسائل کے حل میں اپنا مکمل کردار ادا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ 'یو این ویمن' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں 2050 تک 15 کروڑ 80 لاکھ خواتین اور لڑکیاں غربت کا شکار ہو سکتی ہیں اور مزید 23 کروڑ 60 لاکھ کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ 

تاہم اس حوالے سے اچھی امید بھی رکھی جا سکتی ہے کیونکہ خواتین موسمیاتی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اور کر رہی ہیں۔ دبئی میں جاری 'کاپ 28' میں 'یوم صنفی مساوات' پر خواتین نے اپنے اسی کردار کی وضاحت کی ہے۔

موسمیاتی جنگ میں خواتین کا کردار

دبئی میں جاری 'کاپ 28' کے پانچویں روز اقوام متحدہ میں شراکتوں کے دفتر کی جانب سے اس معاملے پر ایک گروہی مباحثے کا انعقاد ہوا۔ اس میں پیرس معاہدے کی مطابقت سے پائیدار ترقی کے اقدامات میں خواتین کے رہنما کردار کو واضح کیا گیا۔ 

اس موقع پر اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ موسمیاتی جنگ میں خواتین اگلے محاذ پر ہیں۔ سائنس دانوں، قانون دانوں، مقامی رہنماؤں اور نوجوان کارکنوں کی حیثیت سے وہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد تک روکنے کے ہدف کو قابل رسائی رکھنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ 

اسی بات کو دہراتے ہوئے 'یو این ویمن' میں خواتین کے معاشی اختیار سے متعلق شعبے کی سربراہ جمیمہ جوکی نے کہا کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود خواتین اور لڑکیوں کی قیادت میں بہت سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اگر انہیں وسائل مہیا کیے جائیں تو دنیا بہتری کی جانب گامزن ہو جائے گی۔

خواتین مقررین نے بتایا کہ وہ 'کاپ 28' میں موسمیاتی بات چیت پر پیش رفت کا بغور جائزہ لیں گی۔ اس میں قابل تجدید توانائی کی جانب منصفانہ منتقلی، معدنی ایندھن کا بتدریج خاتمہ اور ماحول دوست توانائی کا استعمال بڑھانا خاص طور پر اہم ہیں۔ 

'خواتین کی آواز سنی جائے'

اس دن کے موضوع کی مطابقت سے ہونے والے اجلاسوں اور پروگراموں میں واضح کیا گیا کہ کیسے خواتین مسائل کے حل پیش کر رہی ہیں اور روزگار کو تحفظ دے رہی ہیں۔ 

نائب سیکرٹری جنرل نے واضح کیا کہ اپنے علاقوں، شہروں، ممالک اور خِطوں میں پُرعزم موسمی اقدامات کے حوالے سے خواتین کا کردار نمایاں ہے۔

'یو این ویمن' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باحوس نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کے حق کو 'کاپ 28' سمیت ہر موسمیاتی اقدام میں مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ یہ یقینی بنانا ہو گا کہ فیصلہ سازی میں خواتین کی بھی نمائندگی ہو۔ دنیا کو مشمولہ فیصلہ سازی مضبوط کرنا ہو گی تاکہ خواتین کے حقوق کی حامیوں، نوجوانوں، مقامی اور نچلی سطح پر سرگرم تحریکوں کی آواز مقامی سے عالمی سطح تک واضح سنائی دے۔

یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باحوس کاپ28 کانفرنس سے خطاب کر رہی ہیں۔
© COP28/Christophe Viseux

موسمیاتی بحران اور صنفی تفریق

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) میں شعبہ موسمیاتی امور کے سربراہ گریگ پولے نے مندوبین کو بتایا کہ یہ سخت ناانصافی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ان لوگوں کو زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں جن کا یہ بحران لانے میں بہت کم کردار ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کے معاملے میں بھی انہیں سب سے پیچھے رکھا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ موسمیاتی بحران صنفی اعتبار سے سبھی کو برابر کر رہا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے عطیہ دہندگان اور امدادی اداروں پر زور دیا کہ وہ امدادی اقدامات میں خواتین اور لڑکیوں کی ضروریات پر بطور خاص توجہ دیں۔ 

حقیقی تبدیلی کی مثال

کولمبیا کے علاقے کسپاٹا میں سان انتیرو لوگوں کی رہنما اگناسیا ڈی لا روزا کئی سال سے 'بلیو کاربن' منصوبے پر کام کر رہی ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد کولمبیا میں دریائے سینو کے طاس میں ساحلی جنگلات کو تحفظ دینا ہے۔

ساحلی پودے مچھلیوں کی پیداوار کے لیے نرسری کا کام دیتے ہیں، طوفانوں سے تحفظ مہیا کرتے ہیں اور تعمیرات و کھانا بنانے کے لیے لکڑی مہیا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات میں کمی لانے میں بھی معاون ہیں۔ 

یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈی لا روزا نے بتایا کہ ان کے علاقے میں زراعت اور مویشی بانی کے نتیجے میں ساحلی جنگلات پر آنے والے دباؤ کے شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ لوگ تعمیراتی مقاصد کے لیے ان جنگلات کو کاٹ رہے ہیں جس کے نتیجے سبز ساحلی رقبہ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔

ڈی لا روزا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ جنگلات کو اپنے لوگوں کے لیے پائیدار انداز میں تحفظ دینا تھا تاکہ لوگ ان سے مستفید ہوتے رہیں۔

کولمبیا کے علاقے کسپاٹا میں سان انتیرو لوگوں کی رہنما اگناسیا ڈی لا روزا۔
UN News/Sachin Gaur

چنانچہ ساحلی پودوں اور درختوں کے استعمال سے متعلق پائیدار طریقہ ہائے کار سے کام لیتے ہوئے انہوں نے ناصرف اس فطری ذریعے کو تحفط دیا بلکہ اس جگہ کو ایک پرتعیش سیاحتی مقام میں بھی بدل دیا۔ اب یہاں پرندوں کی نگرانی کا شوق رکھنے والے اور ماحولیاتی شائقین آتے ہیں جو اس اقدام کے لیے آمدنی کا ذریعہ ہوتا ہے۔

تاہم یہی ان کا واحد مسئلہ نہیں تھا۔

ترجمان کے ذریعے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کیسے اس کام میں انہیں نسلی و صنفی امتیاز کا سامنا ہوا اور اکثر مواقع پر وہ 200 مردوں کے درمیان واحد خاتون کی حیثیت سے ساحلی جنگلات کا تحفظ یقینی بنانے کی جدوجہد کرتی رہیں۔ 

ڈی لا روزا نے افسوس کا اظہار کیا کہ صنفی حوالے سے دیکھا جائے تو بہت سے مسائل اب بھی موجود ہیں۔ اگرچہ خواتین کی نمائندگی اب پہلے سے کہیں بڑھ چکی ہے لیکن صںفی اور نسلی امتیاز بدستور قائم ہے۔ ایسے حالات میں حقیقی مساوات کی منزل حاصل کرنے کے لیے ابھی بہت سا سفر طے کرنا باقی ہے۔