انسانی کہانیاں عالمی تناظر

مصنوعی ذہانت کے انتظام پر مشاورت کے لیے نئی یو این تنظیم کا قیام

مشاورتی کمیٹی مصنوعی ذہانت کے استعمال کے اصول و ضوابط پر تجاویز مرتب کرے گی۔
© Unsplash/Steve Johnson
مشاورتی کمیٹی مصنوعی ذہانت کے استعمال کے اصول و ضوابط پر تجاویز مرتب کرے گی۔

مصنوعی ذہانت کے انتظام پر مشاورت کے لیے نئی یو این تنظیم کا قیام

پائیدار ترقی کے اہداف

مصنوعی ذہانت سے لاحق خدشات، اس سے حاصل ہونے والے مواقع اور اس کے عالمگیر انتظام کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کے زیراہتمام ایک مشاورتی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

اس ادارے میں حکومت، نجی شعبے، ٹیکنالوجی، سول سوسائٹی اور تعلیم کے شعبے میں بھرپور تجربہ رکھنے والے ماہرین شامل ہیں جنہیں یہ یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں میں تعاون کی ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) انسانیت کی وسیع تر بھلائی کے لیے ہی استعمال ہو۔

Tweet URL

ادارے کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے گزشتہ برس مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں اور چیٹ بوٹس، وائس کلوننگ، امیج جنریٹرز اور ویڈیو ایپس سمیت اس کے استعمال میں ہونے والی غیرمعمولی ترقی پر بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت انسانی بھلائی کے کاموں میں غیرمعمولی کردار ادا کر سکتی ہے لیکن اس صلاحیت سے پوری طرح کام لینا بھی آسان نہیں جبکہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا ہے اور پائیدار ترقی کی جانب کوششیں جمود کا شکار ہیں۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ مصنوعی ذہانت موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات اور 2030 تک پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کی کوششوں کی رفتار بڑھانے کے علاوہ بحرانوں کی نشاندہی اور ان سے نمٹنے سے لے کر صحت عامہ اور تعلیمی خدمات کی فراہمی تک حکومتوں، سول سوسائٹی اور اقوام متحدہ کے کام سے بہتر اور وسیع تر نتائج کے حصول میں بھی معاون ہو سکتی ہے۔ 

امکانات اور نقصانات

سیکرٹری جنرل نے خبردار کیا کہ آج مہارتیں چند کمپنیوں اور ممالک کے ہاتھوں میں میں مرکوز ہیں جس کے نتیجے میں عالمگیر عدم مساوات مزید بڑھ سکتی ہے اور اس سے ڈیجیٹل تقسیم بھی مزید گہری ہونے کا خدشہ ہے۔ 

مصںوعی ذہانت کے ممکنہ نقصانات میں غلط اور گمراہ کن معلومات کا تیزرفتار سے پھیلاؤ، تعصب اور تفریق میں اضافہ، نگرانی اور نجی اخفا میں مداخلت، دھوکہ دہی اور انسانی حقوق کی دیگر پامالیاں شامل ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال اداروں پر اعتماد میں کمی لانے، سماجی ہم آہنگی کو کمزور کرنے اور جمہوریت کے لیے خطرات پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ 

اس کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت ترقی پذیر ممالک کے لیے پرانی ٹیکنالوجی پر انحصار ختم کرنے اور جہاں سب سے زیادہ ضرورت ہو وہاں لوگوں تک خدمات کی براہ راست فراہمی ممکن بنانے کے امکانات کی حامل ہے۔

مشاورتی بورڈ کے آغاز پر انتونیو گوتیرش نے ایک ویڈیو ایپ کے ساتھ اپنے تجربے کی بابت بتایا جس میں وہ روانی سے چینی زبان میں تقریر کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ اس ویڈیو میں ان کے ہونٹ ہر لفظ کے مطابق حرکت کرتے نظر آئے جبکہ وہ یہ زبان نہیں بولتے۔ 

انہوں ںے کہا کہ یہ مصنوعی ذہانت کے غیرمعمولی امکانات اور اس سے لاحق ممکنہ خطرات کی صرف ایک مثال ہے۔

مشاورتی ادارہ

مصںوعی ذہانت پر مشاورتی ادارہ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے 39 ماہرین پر مشتمل ہے۔ اس کی رکنیت صنفی اعتبار سے متوازن، جغرافیائی طور پر متنوع اور ہر عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ 

اس ادارے سے رواں سال کے آخر تک مصنوعی ذہانت کے بین الاقوامی انتظام، اس ٹیکنالوجی سے لاحق خطرات اور مسائل کی سمجھ بوجھ اور ایس ڈی جی کے حصول کی جانب اقدامات کی رفتار بڑھانے کے لیے مصنوعی ذہانت سے کام لینے کے اہم مواقع کی بابت سفارشات متوقع ہیں۔ 

یہ سفارشات آئندہ برس ستمبر میں مستقبل کی کانفرنس کی تیاریوں میں مدد دیں گی۔ اس کا مقصد پائیدار ترقی کے لیے عزم کی توثیق کرنا اور خاص طور پر مجوزہ عالمی ڈیجیٹل معاہدے کے حوالے سے ہونے والی بات چیت میں مدد دینا ہے تاکہ نئی ٹیکنالوجی کے دور میں سبھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ 

مصنوعی ذہانت کا موثر انتظام

اس موقع پر سیکرٹری جنرل کے نمائندہ برائے ٹیکنالوجی امندیپ سنگھ گِل سے پوچھا گیا کہ مصںوعی ذہانت میں ہونے والی ترقی کی رفتار اس کے موثر عالمگیر انتظام سے متعلق کوششوں سے کہیں زیادہ تیز ہے۔ ایسے میں ماہرین غلط اور گمراہ کن اطلاعات کے پھیلاؤ سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟ 

اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ادارے کے ارکان معاشروں، معیشتوں اور سیاست پر ٹیکنالوجی کے اثرات کی بابت جدید ترین مہارتوں کے حامل ہیں جو اس فرق کو دور کرنے پر قادر ہوں گے۔

ادارے کے ارکان اس حوالے سے نئے مسائل اور موجودہ خامیوں پر بھی قابو پائیں گے تاکہ مصنوعی ذہانت کے انتظام کو مزیدموثر بنایا جا سکے۔ یہ اس سمت میں پہلا قدم ہے اور امید ہے کہ آئندہ برس اس حوالے سے مزید بہت کچھ دیکھنے کو ملے گا۔