انسانی کہانیاں عالمی تناظر

گزشتہ دہائی میں بھی خواتین کو تعصب کا سامنا رہا: یو این رپورٹ

گوئٹے مالا میں 36 سالہ طویل خانہ جنگی کے دوران فوج نے سپر زارکو چوکی پر مقامی خواتین کو جنسی غلام بنائے رکھا (فوٹو اپریل 2018)۔
UN Women/Ryan Brown
گوئٹے مالا میں 36 سالہ طویل خانہ جنگی کے دوران فوج نے سپر زارکو چوکی پر مقامی خواتین کو جنسی غلام بنائے رکھا (فوٹو اپریل 2018)۔

گزشتہ دہائی میں بھی خواتین کو تعصب کا سامنا رہا: یو این رپورٹ

خواتین

اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ دہائی میں خواتین کے خلاف تعصب کی سطح میں کوئی کمی نہیں آئی اور دنیا بھر میں ہر 10 مردوخواتین میں سے نو اب بھی ایسے تعصبات کے مالک ہیں۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے صنفی سماجی رسوم و رواج کے تازہ ترین اشاریے (جی ایس این آئی) پر مبنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا بھر میں نصف آبادی اب بھی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ مرد خواتین کی نسبت زیادہ اچھے سیاسی رہنما ہوتے ہیں اور 40 فیصد سے زیادہ لوگوں کا خیال ہے کہ مرد خواتین کی نسبت زیادہ اچھے کاروباری منتظمین ثابت ہوتے ہیں۔

Tweet URL

یو این ڈی پی میں انسانی ترقی سے متعلق رپورٹ کے دفتر کے سربراہ پیڈرو کونسیسو نے کہا ہے کہ خواتین کے حقوق کو نقصان پہنچانے والے سماجی رواج معاشرے کے لئے مزید وسیع طور سے نقصان دہ ہوتے ہیں جو انسانی ترقی کی وسعت میں کمی لے آتے ہیں۔  

خواتین کے خلاف تعصبات میں اضافہ

رپورٹ میں عالمگیر اقدار کے بارے میں جائزے پر مبنی معلومات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 25 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ مرد کے لئے اپنے بیوی کو تشدد کا نشانہ بنانا قابل جواز ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ تعصبات خواتین کے لئے مشکلات پیدا کرتے ہیں جس کا اظہار دنیا کے بہت سے ممالک میں خواتین کے حقوق سلب کئے جانے سے ہوتا ہے جہاں صںفی مساوات کے خلاف تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں اور بعض ممالک میں خواتین کے حقوق کی پامالیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

یہ تعصبات قیادت کے میدان میں خواتین کی انتہائی کم نمائندگی سے بھی عیاں ہیں۔ 1995 سے اب تک سربراہان ریاست و حکومت میں خواتین کا تناسب 10 فیصد کے لگ بھگ رہا ہے اور افرادی قوت کی منڈی میں انتظامی عہدوں پر خواتین کی تعداد ایک تہائی سے بھی کم ہے۔

ترقی میں ٹوٹے ربط

رپورٹ میں تعلیم کے شعبے میں خواتین کی ترقی اور ان کی معاشی بااختیاری کے درمیان ٹوٹے ربط پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اب خواتین پہلے کی نسبت کہیں زیادہ باصلاحیت اور تعلیم یافتہ ہیں تاہم اس کے باوجود 59 ایسے ممالک میں خواتین کی آمدنی مردوں سے 39 فیصد کم ہے جہاں اب خواتین تعلیمی اعتبار سے مردوں سے آگے ہیں۔

پیڈرو کونسیسو کا کہنا ہے کہ 2020 میں انسانی ترقی کے عالمگیر اشاریے (ایچ ڈی آئی) میں پہلی مرتبہ ریکارڈ کمی آئی اور اس سے آئندہ برس بھی یہی صورتحال رہی۔ اس طرح انسانی ترقی کے بحران کے مقابل صںفی سماجی رسوم و رواج پر مثبت پیش رفت کا فقدان سامنے آ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کی آزادی اور اختیار یقینی بنانے سے سبھی کو فائدہ ہوتا ہے۔

حکومتوں کا اہم کردار

یو این ڈی پی کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بچے کی پیدائش پر چھٹیوں کی پالیسیوں سے لے کر افرادی قوت کی مںڈی تک صنفی سماجی رسوم و رواج میں تبدیلی لانے کے لئے حکومتوں کا اہم کردار ہے۔ اس معاملے میں اول الذکر پالیسیوں نے نگہداشت کے کام کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تصورات کو تبدیل کیا ہے اور موخرالذکر اصلاحات افرادی قوت میں خواتین کے حوالے سے پائے جانے والے نظریات میں تبدیلی کا باعث بنی ہیں۔

یو این ڈی پی کی صںفی ٹیم کی ڈائریکٹر راکیل لاگوناس نے کہا ہے کہ "نگہداشت کے بلامعاوضہ کام کی معاشی قدر کو سمجھنا صورتحال میں بہتری کے حوالے سے کام کا شروع کرنے کا اہم طریقہ ہے۔

یہ نگہداشت کے کام سے متعلق نقطہ نظر سے منسلک صنفی رسوم و رواج کے خلاف کھڑے ہونے کا نہایت موثر طریقہ ہوسکتا ہے۔ جن ممالک میں خواتین کے خلاف صنفی اعتبار سے بہت زیادہ تعصب پایا جاتا ہے وہاں خواتین اندازاً بلامعاوضہ نگہداشت کے کام پر مردوں کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ وقت صرف کرتی ہیں۔

افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو کابل کے موجودہ حکمران طالبان کے دور میں انتہائی تعصب کا سامنا ہے۔
UNAMA/Fraidoon Poya
افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو کابل کے موجودہ حکمران طالبان کے دور میں انتہائی تعصب کا سامنا ہے۔

مثبت اشاریے

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ خواتین کے خلاف تعصب کی مسلسل موجودگی کے باوجود معلومات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تبدیلی لانا ممکن ہے۔

اس موضوع پر جن 38 ممالک میں جائزہ لیا گیا ان میں سے 27 میں ایسے لوگوں کی تعداد واضح طور پر بڑھ گئی ہے جن میں خواتین کے حوالے سے کوئی تعصب نہیں پایا جاتا۔

رپورٹ میں تعلیم کے ذریعے سماجی رسوم و رواج سے براہ راست نمٹںے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ لوگوں کے خیالات اور اس معاملے پر پالیسیوں میں تبدیلی لائی جائے اور ایسی قانونی تبدیلیاں کی جائیں جن کے ذریعے ہر شعبہ زندگی میں خواتین کے حقوق کا اعتراف ہو اور انہیں فیصلہ سازی و سیاسی عمل میں مزید نمائندگی حاصل ہو سکے۔