انسانی کہانیاں عالمی تناظر

امریکہ: اسقاط حمل کی ممانعت سے لاکھوں خواتین کو خطرہ لاحق

اسقاط حمل کے اختیار کے حامی 2021 میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں مظاہرہ کر رہے ہیں۔
© Unsplash/Gayatri Malhotra
اسقاط حمل کے اختیار کے حامی 2021 میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں مظاہرہ کر رہے ہیں۔

امریکہ: اسقاط حمل کی ممانعت سے لاکھوں خواتین کو خطرہ لاحق

صحت

انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے غیرجانبدار ماہرین نے کہا ہے کہ جون 2022 میں امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے اسقاط حمل کے آئینی حق کی منسوخی کے بعد ملک میں لاکھوں خواتین کو جنسی و تولیدی طبی نگہداشت تک رسائی میں تشویشناک کمی کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے متعین کردہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال کے آغاز سے ملک کی 14 ریاستوں میں اسقاط حمل پر پابندی عائد کی جا چکی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے  کے نتائج قانون اور پالیسی کے حوالے سے پورے نظام پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔

Tweet URL

انہوں نے کہا کہ امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے رجعت پسندانہ موقف اختیار کرتے ہوئے ملک میں اسقاط حمل کے حق کو 50 سال سے حاصل تحفظ بنیادی طور پر ختم کیا جا چکا ہے جس سے لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس تاریخی فیصلے کا نتیجہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی پامالیوں کی صورت میں نکلا ہے۔ اس فیصلے کے تحت عدالت نے 1973 کا 'رو بنام ویڈ' فیصلہ ختم کر کے اسقاط حمل کے قانون کو ریاستی قانون سازوں کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔

اسقاط حمل کی خدمات تک عدم رسائی

ماہرین نے کہا کہ اس پابندی نے اسقاط حمل کی خدمات کو بڑی حد تک ناقابل رسائی بنا دیا ہے اور خواتین اور لڑکیوں کے لئے جنسی و تولیدی صحت سمیت جامع طبی نگہداشت کے بنیادی انسانی حق کو ناقابل رسائی کر دیا ہے۔

اس کا نتیجہ خواتین کے اخفا ، جسمانی سلامتی اور خودمختاری، اظہار، سوچ، ضمیر، مذہب یا عقیدے، مساوات اور عدم امتیاز کی آزادی سلب کئے جانے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے تشدد اور ظالمانہ، غیرانسانی اور توہین آمیز سلوک اور صنفی بنیاد پر تشدد سے آزادی کے حق کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

غیرمتناسب اثرات

ماہرین نے کہا کہ "مشکل حالات کا سامنا کرنے والی خواتین اور لڑکیاں ان پابندیوں سے غیرمتناسب طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں پسماندہ گروہوں اور نسلی و قومی اقلیتوں، مہاجرین، معذور خواتین اور لڑکیوں یا کم آمدنی والے گھرانوں، پرتشدد تعلقات میں شامل یا دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین اور لڑکیوں کا حوالہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے میں ماں کی زندگی کو تحفظ دینے یا جنسی زیادتی یا محرم افراد کے ہاتھوں جنسی استحصال کا نشانہ بننے کے نتیجے میں اسقاط حمل کی اجازت عملی طور پر ناقابل عمل ثابت ہوئی ہے۔

موت کے خطرات

ماہرین کا کہنا ہے کہ "ہمیں ملک بھر میں اسقاط حمل کی خدمات مہیا کرنے والوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات کی بڑھتی ہوئی اطلاعات پر خاص تشویش ہے۔"

اسقاط حمل کو خلاف قانون قرار دیے جانے سے بہت سی ریاستوں میں خواتین اور لڑکیوں کے نظام صحت سے رجوع کرنے اور ماؤں کی حیثیت نگہداشت کے حصول کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ "یہ بات خاص طور پر باعث تشویش ہے کہ بعض ہسپتال اب اسقاط حمل سے متعلقہ خدمات مہیا کرنے سے انکاری ہیں اور ان ریاستوں میں بھی یہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں تاحال اسقاط حمل کو غیرقانونی قرار نہیں دیا گیا۔"

انسانی حقوق ماہرین

انسانی حقوق ماہرین اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے متعین کئے جاتے ہیں۔ ان کا کام انسانی حقوق کے حوالے سے مخصوص مسائل یا کسی ملک میں حقوق کی صورتحال کی نگرانی کرنا اور اطلاع دینا ہے۔ یہ ماہرین اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا کوئی معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔