خواتین کو بلا جھجھک جنس اور شناخت پر بات کرنے دیں: یو این ماہر

خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کی روک تھام کے حوالے سے اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار ریم السالم نے کہا ہے کہ جنس اور جنسی میلان پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے والے خواتین کو لاحق خطرات اور انہیں دھمکایا جانا انتہائی تشویش کا باعث ہے۔
دنیا کے شمالی ترقی یافتہ حصے کے متعدد ممالک میں خواتین کے حقوق کے بعض کارکنوں اور ٹرانس جینڈر افراد کے مابین اختلافات کے تناظر میں انہوں نے خواتین کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے اور اپنی اختلافی آرا کا اظہار کرنے والے لوگوں کو دھمکائے جانےکی بابت خبردار کیا۔
انہوں ںے کہا کہ جنس اور جنسی میلان کی بنیاد پر امتیازی سلوک انسانی حقوق کے بین الاقوامی اور علاقائی قوانین سے متصادم ہے۔
ریم السالم کا کہنا ہے کہ دنیا کے شمالی حصے کے متعدد ممالک میں اپنی جنس یا جنسی میلان کی بنیاد پر اپنی ضروریات کے احترام کا پُرامن مطالبہ کرنے کے لئے اکٹھے ہونے اور اس حوالے سے خیالات کا اظہار کرنے والی خواتین اور حقوق نسواں کی علمبردار تنظیموں اور ان کے اتحادیوں کے لئے مشکل ہوتے حالات تشویش ناک ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ خواتین کے قانونی طور پر جائز اجتماعات کو تحفظ دینے اور خواتین کی حفاظت کے بغیر ان کے اجتماع اور اظہار کی آزادی کے حقوق یقینی بنانے میں نفاذ قانون کا اہم کردار ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ جہاں نفاذ قانون ضروری تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوا وہاں خواتین کے خلاف زبانی و جسمانی بدسلوکی، ہراسانی اور دھمکیوں کے واقعات سامنے آئے جس کا مقصد خواتین کی سرگرمیوں کو ناکام بنانا اور اجتماعات میں بات کرنے کی خواہش رکھنے والی خواتین کو خاموش کرانا ہے۔
انہوں نے خواتین، لڑکیوں اور ان کے اتحادیوں کو جنس اور ہم جنس تعلقات کی بنیاد پر غیرمساوی سلوک کے خلاف ان کے اعتقادات کی بنیاد پر بدنام کرنے کی متواتر مہمات پر افسوس اور پریشانی کا اظہار کیا۔
ریم السالم نے کہا کہ ایسی خواتین کو "نازی"، "نسل کُش" یا "انتہا پسند" جیسے نام دینے کا مقصد خواتین کو بولنے اور اپنے خیالات کے اظہار سے روکنا ہے۔ انہوں ںے کہا کہ ایسے اقدامات انتہائی پریشان کن ہیں کیونکہ ان کا مقصد خواتین کو خوفزدہ کرنا، انہیں شرمندہ کر کے خاموش کرانا اور ان کے خلاف تشدد اور نفرت کو بھڑکانا ہے۔ ایسے اقدامات معاشرے میں خواتین اور لڑکیوں کی باوقار شرکت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔
انہوں نے سنسرشپ، قانونی ہراسانی، روزگار اور آمدنی کے خاتمے، سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز سے بیدخلی، تقاریر سے روکے جانے اور تحقیقی نتائج اور مضامین شائع کرنے کی اجازت نہ دینے کی صورت میں خواتین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی متعدد اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ "بعض واقعات میں خواتین سیاست دانوں پر ان کی سیاسی جماعتیں پابندی لگا دیتی ہیں جس کے لئے انہیں برطرفی کی دھمکی دی جاتی ہے یا واقعتاً برطرف کر دیا جاتا ہے۔"