انسانی کہانیاں عالمی تناظر

خواتین کے حقوق پر طالبان سے مکالمہ جاری رکھنا ضروری: یونامہ چیف

صوبہ بلخ کے شہر مزار شریف میں لڑکیوں کا ایک سکول (فائل فوٹو)۔
© UNICEF/Mark Naftalin
صوبہ بلخ کے شہر مزار شریف میں لڑکیوں کا ایک سکول (فائل فوٹو)۔

خواتین کے حقوق پر طالبان سے مکالمہ جاری رکھنا ضروری: یونامہ چیف

امن اور سلامتی

افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ خواتین کے حقوق اور مشمولہ حکمرانی سے متعلق طالبان کی پالیسیوں سے شدید اختلاف کے باوجود ان کے رہنماؤں سے رابطہ برقرار رکھا جانا چاہیے۔

خصوصی نمائندہ اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) کی سربراہ روزا اوٹنبائیوا نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ افغان حکمرانوں سے رابطے کی حالیہ کوششیں مثبت سمت میں گامزن نہیں ہیں اور اس حوالے سے نئی حکمت عملی بنانا ضروری ہے۔

Tweet URL

تمام فریقین کے مابین بھروسے کا فقدان اعتماد قائم کرنے میں سنگین رکاوٹ ہے تاہم بات چیت کے دروازے اب بھی کھلے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ مسائل کے باوجود یہ ایک موقع ہے اور ہمیں یقینی بنانا ہے کہ بات چیت جاری رہے۔ 

طالبان کی پالیسیاں ناقابل قبول 

روزا اوٹنبائیوا نے کہا کہ خواتین کو عوامی زندگی اور تعلیم سے محروم کرنے کے لیے طالبان کے جاری کردہ 50 سے زیادہ احکامات کے باعث ان کے ساتھ روابط کو نقصان ہوا۔ 

سماجی زندگی سے خواتین کے اخراج کی پالیسیاں عالمی برادری کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ 

انہوں نے افغانستان کی خواتین کے ساتھ 500 سے زیادہ مرتبہ ہونے والی گفتگو پر مبنی اقوام متحدہ کی رپورٹ کا حوالہ دیا۔ ان میں سے 46 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ ان پالیسیوں کو کسی بھی طرح کے حالات میں تسلیم نہ کیا جائے۔ 

تاہم، انہوں نے سوال کیا کہ آیا ان پالیسیوں کے باوجود ملک کے حکمرانوں سے رابطہ قائم رکھا جائے یا نہیں؟

'یوناما' کا نقطہ نظر یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ روابط اور بات چیت کو برقرار رہنا چاہیے۔' 

روزا اوٹنبائیوا نے کہا بات چیت کا مطلب طالبان کا موقف تسلیم کرنا نہیں۔ روابط سے مراد یہ نہیں کہ ان پالیسیوں کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس سے برعکس بات چیت اور روابط کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان پالیسیوں کو تبدیل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

نئی حکمت عملی 

روزا اوٹنبائیوا نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ یہ رابطہ اصولوں پر قائم رہتے ہوئے مزید تعمیری اور بامقصد ہو سکتا ہے۔ 

ایسی نئی حکمت عملی میں سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ افغان عوام کی بہبود کی تمام ذمہ داری ملکی حکمرانوں پر ہے اور خواتین اس حوالے سے خاص طور پر اہم ہیں۔

Tweet URL

حکمت عملی کے دیگر اجزا میں ملکی حکمرانوں کے طویل مدتی خدشات سے نمٹنے کا طریقہ کار اور افغان فریقین کے مابین ایسی سنجیدہ بات چیت شامل ہے جو اگست 2021 میں طالبان کے برسراقتدار  آنے کے بعد ختم ہو گئی تھی۔ 

علاوہ ازیں اس حوالے سے عالمی برادری کے مزید ہم آہنگ موقف کی بھی ضرورت ہو گی۔ 

امتیازی سلوک کے نقصانات 

صنفی مساوات کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ویمن' کی سربراہ سیما باحوس نے بھی کونسل کو افغانستان کی صورتحال پر بریفنگ دی۔ انہوں نے سفیروں کو بتایا کہ طالبان کے احکامات سے ملک کو اندازاً ایک ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے اور یہ بڑھتا جا رہا ہے۔

ان احکامات سے ملک میں پہلے سے خراب انسانی صورتحال مزید بگڑ رہی ہیں جہاں دو تہائی سے زیادہ آبادی اپنی بقا کے لیے امداد پر اںحصار کرتی ہے اور تقریباً 20 ملین لوگوں کو شدید بھوک کا سامنا ہے جن میں بیشتر تعداد خواتین اور لڑکیوں کی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ حالات میں تبدیلی لانے کے لیے مستقبل کا لائحہ عمل خواتین کی آرا اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی رہنمائی میں ترتیب دینا ضروری ہے۔ 

صنفی عصبیت 

سیما باحوس نے تجویز کیا کہ افغانستان کے خلاف پابندیوں کی نگرانی کرنے والی سلامتی کونسل کی کمیٹی اپنا اجلاس بلائے اور اس میں خواتین کے حقوق کی پامالیوں پر ردعمل دینے کے لیے اپنے ممکنہ کردار کا جائزہ لے۔ 

انہوں نے کہا کہ یہ معاشی، ذہنی صحت اور ترقی کا بحران ہے اور ایسے تمام بحران خواتین کے حقوق کے بحران سے جڑے ہیں۔ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور اس پر ہمیں جو اقدامات کرنا چاہئیں انہیں سمجھنے کے لیے حالات کو اسی تناظر میں دیکھنا ہو گا۔ 

انہوں نے سلامتی کونسل میں سفیروں سے کہا کہ وہ بین الاقوامی قانون میں 'صنفی عصبیت' کو صراحتاً شامل کرنے کی کوششوں کی مکمل حمایت کریں۔

قانونی ماہر کریمہ بیناؤنی نے سفیروں کو بتایا کہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی بعض افغان خواتین نے حالیہ دنوں بھوک ہڑتال کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ عالمی برادری تسلیم کرے کہ ان کے ملک میں صنفی عصبیت کا ارتکاب ہو رہا ہے۔