انسانی کہانیاں عالمی تناظر

افغانستان کے قانونی نظام کا انہدام ’انسانی حقوق کے لیے تباہی‘

جلال آباد میں کی ایک گلی سے خواتین گزر رہی ہیں (فائل فوٹو)۔
UN Photo/Fardin Waezi
جلال آباد میں کی ایک گلی سے خواتین گزر رہی ہیں (فائل فوٹو)۔

افغانستان کے قانونی نظام کا انہدام ’انسانی حقوق کے لیے تباہی‘

انسانی حقوق

افغانستان میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے متعین کردہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں ختم ہوتی قانون کی حکمرانی اور عدالتی آزادی ''انسانی حقوق کی تباہی'' ہے۔

افغانستان میں ججوں اور وکلا کی آزادی پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار مارگریٹ سیٹرتھ وائٹ اور ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں اطلاع دینے والے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے کہا ہے کہ افغانستان کے قانونی نظام سے وابستہ وکلا، ججوں، قانون دانوں اور دیگر کرداروں کے تحفظ کو سنگین خدشات لاحق ہیں اور جو لوگ ان حالات میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں وہ انتہائی مشکل اور جانبدارانہ قانونی نظام میں اپنی راہ تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔''

'کھلی تفریق'

24 جنوری کو خطرات کا سامنا کرنے والے وکلا کے عالمی دن سے قبل اپنے بیان میں ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے وکلا خصوصاً خواتین قانون کو تحفظ دینے کی کوششوں میں اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا کہ ''ہمیں قانونی نظام سے خواتین کے بڑے پیمانے پر اخراج پر شدید خدشات ہیں اور عالمی برادری ان خواتین کی ''فوری مدد'' کے لیے آگے آئے۔

ملک میں غیرجانبدار قانونی نظام کے بجائے مردوں کی حکومت طالبان کا وضع کردہ شرعی قانون نافذ کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان نے''کھلی تفریق'' کرتے ہوئے قانونی نظام میں تمام خواتین کے کام کرنے پر موثر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے۔

250 سے زیادہ خواتین ججوں اور سینکڑوں خواتین وکلا اور قانون دانوں کو پہلے ہی ان کی ذمہ داریوں سے ہٹایا جا چکا ہے۔

خصوصی ماہرین نے مزید کہا کہ ''بہت سی خواتین جج ملک چھوڑ چکی ہیں یا روپوش ہو گئی ہیں۔''

'سنگین خطرہ'

اطلاع کاروں کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے ''قانون دانوں کو ''باقاعدہ طور پر کام سے روک دیا گیا ہے'' اور جمہوری طور سے منتخب حکومتوں میں طالبان ارکان کے خلاف اپنے سابقہ تحقیقاتی اور قانونی کام کی وجہ سے انہیں ''سنگین خطرات'' لاحق ہیں۔

اطلاعات کے مطابق کابل اور دوسرے صوبوں میں درجن سے زیادہ قانون دان، جن میں مردوں کی اکثریت ہے، نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل کیے جا چکے ہیں اور بہت سے روپوش ہو گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا کہ ''طالبان نے 2004 کے آئین کو معطل کر کے، تمام ججوں کو بینچ سے خارج کر کے اور اٹارنی جنرل کے دفتر سے اس کا اہم کردار واپس لے کر ''افغانستان میں قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے خاتمے کی بنیاد رکھ دی ہے۔

ملک میں غیرجانبدار قانونی نظام کے بجائے مردوں کی حکومت طالبان کا وضع کردہ شرعی قانون نافذ کر رہی ہے۔''

موجودہ قانونی عہدوں پر بنیادی طور پر طالبان کے ارکان کو تعینات کیا گیا ہے جن کے پاس صرف بنیادی مذہبی تعلیم ہوتی ہے اور انہیں بااختیار مسلمان قانونی ماہرین مشورے دیتے ہیں جنہیں مفتی کہا جاتا ہے۔

مزید برآں، قانونی طریقہ کار کے حوالے سے قوانین اور ضوابط معطل کر دیے گئے ہیں اور خواتین اسی وقت ہی عدالت میں پیش ہو سکتی ہیں جب وہ کسی تنازعے کی فریق ہوں۔

اطلاع کاروں نے مزید کہا کہ ''پولیس اور دیگر ادارے ملزموں کی گرفتاری کے روز ہی انہیں سزا سناتے اور اس پر عمل کر دیتے ہیں اور انہیں جائز قانونی کارروائی یا عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کا کوئی موقع نہیں دیا جاتا۔''

'عالمی برادری مدد کرے'

اطلاع کاروں نے وکلا، قانونی مدد فراہم کرنے والوں، انصاف اور انسانی حقوق کے فروغ کے لیے کام کرنے والے غیرسرکاری اداروں کے لیے بڑے پیمانے پر بین الاقوامی مدد کی فراہمی اور خواتین وکلا نیز صںفی حقوق کے فروغ کے لیےکام کرنے والوں کی صورتحال پر خصوصی توجہ دیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ''عالمی برادری وکلا، ججوں، قانون دانوں اور قانونی نظام سے وابستہ دیگر کرداروں خصوصاً خواتین کو تحفظ اور محفوظ راہ مہیا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے جنہیں طالبان اور دیگر کی جانب سے انتقامی کارروائی اور حملوں کا خطرہ ہے۔

قانونی عہدوں پر بنیادی طور پر طالبان کے ارکان کو تعینات کیا گیا ہے جن کے پاس صرف بنیادی مذہبی تعلیم ہوتی ہے۔

موجودہ حکمرانوں کے برسراقتدار آنے کے بعد ''ناقابل تصور رکاوٹوں'' کے باوجود قانونی پیشے سے تعلق رکھنے والوں نے افغانوں کی قانونی ضروریات پوری کرنےکے لیے اپنی کوششیں جاری رکھی ہیں۔''

ماہرین نے کہا کہ ''یہ لوگ بہت زیادہ مدد کے حق دار ہیں۔''

انہوں نے طالبان پر زور دیا کہ وہ خواتین کو قانونی نظام سے خارج کرنے کے بیہودہ اقدامات ''فوری واپس لیں''، انصاف کے اہتمام کے لیے کام کرنے والے ہر فرد کی زندگی کو تحفظ دیں اور تمام افغانوں کے لیے منصفانہ قانونی کارروائی کا حق یقینی بنائیں۔

خصوصی اطلاع کار جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے متعین کیے جاتے ہیں جن کا مقصد انسانی حقوق کے کسی مخصوص موضوع یا کسی ملک میں حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینا اور اپنی رپورٹ پیش کرنا ہے۔ یہ عہدے اعزازی ہیں اور ماہرین کو ان کے کام کا معاوضہ نہیں دیا جاتا۔