انسانی کہانیاں عالمی تناظر

طالبان سے سرعام کوڑے مارنا اور سزائے موت دینا بند کرنے کی اپیل

طالبان کے افغانستان میں شادی کے بغیر تعلقات مرد و خواتین دونوں کے لیے برابر جرم سمجھا جاتا ہے تاہم عملی طور پر زیادہ تر اس کی سزا خواتین اور لڑکیوں کو ملتی ہے۔
© UNICEF/Shehzad Noorani
طالبان کے افغانستان میں شادی کے بغیر تعلقات مرد و خواتین دونوں کے لیے برابر جرم سمجھا جاتا ہے تاہم عملی طور پر زیادہ تر اس کی سزا خواتین اور لڑکیوں کو ملتی ہے۔

طالبان سے سرعام کوڑے مارنا اور سزائے موت دینا بند کرنے کی اپیل

انسانی حقوق

ان سزاؤں کا آغاز افغانستان میں طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے گزشتہ مہینے عدلیہ کو اسلامی قانون کی شکل برقرار رکھنے کی ہدایت کے بعد ہوا ہے۔

انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے غیرجانبدار ماہرین نے افغانستان میں حکمران طالبان قیادت سے اپیل کی ہے کہ لوگوں کو سرعام کوڑے مارے جانے اور سزائے موت کی بحالی کو ختم کیا جائے۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''ہم افغانستان کے موجودہ حکمرانوں سے کہتے ہیں کہ وہ سزائے موت پر فوری پابندی نافذ کریں، کوڑے مارنے اور تشدد یا دیگر ظالمانہ، غیرانسانی یا توہین آمیز سلوک یا تادیب کی ذیل میں آنے والی دیگر جسمانی سزاؤں کو ممنوع قرار دیں اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق منصفانہ مقدمے اور جائز قانونی کارروائی کی ضمانت دیں۔

'خواتین خاص ہدف ہیں'

اطلاعات کے مطابق تخار، لوگر، لغمان، پروان اور کابل سمیت افغانستان کے متعدد صوبوں میں 18 نومبر کے بعد 100 سے زیادہ مرد و خواتین کو سرعام کوڑے مارے گئے ہیں۔

کوڑے مارنے کی سزائیں کھیلوں کے میدانوں میں طالبان کے حکام اور عام لوگوں کی موجودگی میں دی گئیں۔

چوری، ''ناجائز'' تعلقات یا سماجی طرزعمل سے متعلق ضابطوں کی خلاف ورزی جیسے مبینہ جرائم پر ہر فرد کو 20 سے 100 تک کوڑے مارے گئے۔

ماہرین نے کہا کہ ''اگرچہ شادی کے بغیر تعلقات مرد و خواتین دونوں کے لیے برابر جرم سمجھا جاتا ہے تاہم عملی طور پر زیادہ تر اس کی سزا خواتین اور لڑکیوں کو ملتی ہے۔''

حکام موقع پر موجود

اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد گزشتہ ہفتے طالبان حکام نے بظاہر پہلی مرتبہ سرعام موت کی سزا دی۔

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر 'او ایچ سی ایچ آر' نے اسے ''انتہائی پریشان کن'' واقعہ قرار دیا ہے۔ میڈیا میں آںے والی اطلاعات کے مطابق سزا پانے والے شخص پر قتل کا الزام تھا اور اسے مقتول کے والد کی موجودگی میں گولی ماری گئی۔

موت کی یہ سزا 7 دسمبر کو افغانستان کے جنوب مغربی صوبہ فراح میں کھیل کے ایک میدان میں دی گئی جہاں بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے۔

طالبان کے اعلیٰ حکام بشمول نائب وزیراعظم اور چیف جسٹس بھی موقع پر موجود تھے۔

'ناگوار اور غیرمہذبانہ اقدام'

اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا کہ سرعام کوڑے مارے جانے اور موت کی سزاؤں کا سلسلہ 13 نومبر کو طالبان کے اعلیٰ ترین رہنما کی جانب سے عدلیہ کو حدود (خدا کے خلاف جرائم) اور قصاص (ایک طرح سے بدلہ) کی سزاؤں پر عملدرآمد کا حکم جاری کیے جانے کے بعد شروع ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ''سرعام کوڑے مارے جانا اور سرعام موت کی سزا دینا عالمگیر اصولوں کے منافی ہے جو تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیرانسانی یا توہین آمیز سلوک یا سزا کی ممانعت کرتے ہیں۔''

ان کا کہنا تھا کہ ''لوگوں کی موجودگی میں سزائیں دینے سے یہ اقدام خاص طور پر ناگوار اور اوچھی صورت اختیار کر جاتا ہے۔''

منصفانہ مقدمات پر شبہات

ماہرین نے کہا کہ افغانستان اقوام متحدہ کے ایک میثاق میں فریق ہے جو تشدد یا دیگر ظالمانہ، غیرانسانی یا توہین آمیز سزا کی ممانعت کرتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ''ہم یہ سزائیں پانے والوں کے خلاف چلائے گئے مقدمات کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں جن میں بظاہر منصفانہ قانونی کارروائی کی ضمانتوں کا پاس نہیں کیا گیا۔''

انہوں نے کہا کہ ''انسانی حقوق کا بین الاقوامی قانون ایسی ظالمانہ سزاؤں خصوصاً موت کی سزا پر عملدرآمد کو ممنوع قرار دیتا ہے جو ایسے مقدمات کے نتیجے میں دی جاتی ہیں جن میں بظاہر منصفانہ سلوک کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔''

اقوام متحدہ کے ماہرین کون ہیں

یہ بیان جاری کرنے والے 10 ماہرین کی تعیناتی جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے عمل میں آئی۔

ان ماہرین میں متعدد خصوصی اطلاع کار بھی شامل ہیں جنہیں افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال یا عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف امتیازی سلوک جیسے مسائل کا جائزہ لینے اور رپورٹ دینے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔

کونسل کی جانب سے مقرر کردہ ماہرین کا کسی حکومت یا ادارے سے تعلق نہیں ہوتا۔ یہ ماہرین رضاکارانہ طور پر فرائض انجام دیتے ہیں اور انفرادی حیثیت میں کام کرتے ہیں۔

یہ ماہرین اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور انہیں ان کے کام پر کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔