افغانستان: طالبان سے خواتین پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی نمائندہ نے طالبان سے خواتین اور لڑکیوں پر عائد کی جانے والی پابندیاں واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ حقوق پر رکاوٹیں جتنا عرصہ برقرار رہیں گی ملک کو اتنا ہی زیادہ نقصان ہو گا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ روزا اوتنبائیووا نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو کام، تعلیم اور عوامی زندگی میں شرکت سے روکنے کے باعث ان کی ذہنی و جسمانی صحت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
لباس سے متعلق ضابطوں کی خلاف ورزی پر گرفتاریوں سے افغانستان کی خواتین پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ایسے واقعات کے باعث بہت سی خواتین عوامی مقامات پر جانے سے خوفزدہ ہیں۔
قطر اجلاس اور طالبان کا موقف
انہوں ںے 18 اور 19 فروری کو قطر میں افغانستان کے لیے قومی اور علاقائی نمائندوں کے دوسرے اجلاس کا تذکرہ بھی کیا۔ اس اجلاس میں افغان حکام نے شرکت نہیں کی تھی تاہم انہوں نے مفصل بات چیت کی ضرورت کے حوالے سے سیکرٹری جنرل کے بیان کا خیرمقدم کیا تھا۔
خصوصی نمائندہ نے بتایا کہ طالبان کی جانب سے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ عالمی برادری سے بات چیت نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ اس کا سبب ان کا یہ خدشہ تھا کہ انہیں اس اجلاس میں باقاعدہ فریق کے طور پر نہیں لیا جائے گا۔
طالبان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اجلاس میں محض انہیں عالمی برادری کے فیصلوں سے آگاہ کرنے کے بجائے حقیقی معنوں میں بات چیت ہونی چاہیے۔
منفی رحجانات
روزا اوتنبائیووا افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یونیما) کی سربراہ بھی ہیں جنہوں نے حالیہ دنوں اپنے مشاہدے میں آنے والے متعدد منفی رحجانات پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے بتایا کہ مشن کے مشاہدے میں آیا ہے کہ افغانستان میں لوگوں کے شہری، ثقافتی، معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے خواتین اور لڑکیوں پر جبر، لوگوں کو جسمانی اور موت کی سزا دینے کی صورت میں تشدد کے کھلے عام مظاہرے، مشمولہ حکمرانی کے فقدان اور اقلیتوں کی پسماندگی کا تذکرہ کیا۔
ان کا کہنا تھا، یہ بات درست ہے کہ طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد لاکھوں لوگوں کے تحفظ کی صورتحال میں بہتری آئی ہے لیکن انہیں اس کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑ رہی ہے۔
کامیابیاں اور خدشات
انہوں نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ افغانستان عالمی برادری کے لیے بدستور ایک مسئلہ ہے۔ ملک کو طویل عرصہ سے عدم استحکام اور دہشت گردی کا سامنا رہا ہے۔ اس کے علاوہ، ماضی قریب تک دنیا میں 85 فیصد افیون بھی یہیں پیدا ہوتی رہی ہے اور اس کے لاکھوں شہری ہمسایہ ممالک اور دنیا کے دیگر خطوں میں پناہ کے لیے سرگرداں رہے ہیں۔
اس پس منظر میں حالیہ عرصہ میں کسی قدر استحکام، افیون کی کاشت کا خاتمہ کرنے کے اقدامات اور داعش سے نمٹنے کے لیے طالبان کی کوششوں کا اعتراف کرنا ضروری ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے حوالے سے بہتری نہ آئی تو یہ کامیابیاں طویل مدتی استحکام کی ضامن نہیں ہوں گی۔