انسانی کہانیاں عالمی تناظر

افغانستان: این جی اوز میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی کی ہمہ گیر مذمت

قندھار میں پولیو کے خلاف مہم کے دوران ہیلتھ ورکر بچوں کو ویکسین لگا رہی ہیں۔
© UNICEF/Frank Dejongh
قندھار میں پولیو کے خلاف مہم کے دوران ہیلتھ ورکر بچوں کو ویکسین لگا رہی ہیں۔

افغانستان: این جی اوز میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی کی ہمہ گیر مذمت

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے اداروں کے اعلیٰ حکام اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے سربراہوں نے مشترکہ طور پر افغانستان کے حکمرانوں پر زور دیا ہے کہ وہ امداد مہیا کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنے والی خواتین پر اپنی پابندی واپس لیں۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام، ادارہ برائے مہاجرین اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق کمیٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ ''افغانستان میں خواتین کو امدادی کام سے روکنے کے نتائج تمام افغانوں کی زندگی کے لیے فوری خطرے کا باعث ہوں گے۔''

Tweet URL

حکام کے مطابق افغانستان میں کام کرنے والے عملے میں خواتین ارکان کی کمی کے باعث پہلے ہی بعض امدادی پروگراموں کو عارضی طور پر بند کرنا پڑا ہے جبکہ اس وقت ملک میں سخت سردی، معاشی بدحالی اور قحط کے خطرے کا سامنا کرنے والے دو کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو اپنی 'بقاء کے لیے مدد' کی ضرورت ہے۔

ہفتے کو طالبان کی جانب سے افغان خواتین کے این جی اوز کے لیے کام پر پابندی عائد کیے جانے کی اطلاع کے بعد جاری کردہ مشترکہ بیان میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام نے کہا کہ خواتین پر مشتمل عملہ ''افغانستان میں امدادی کام کے ہر پہلو میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔'' 

خاص رسائی

انہوں نے واضح کیا کہ خاص طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ ''خواتین کو آبادی کے اُن حصوں تک بھی رسائی ہوتی ہیں جہاں ان کے مرد ساتھی نہیں پہنچ سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین امدادکار ''زندگیوں کو تحفظ دیتی ہیں۔''

اقوام متحدہ اور این جی اوز کے حکام نے کہا کہ ''اساتذہ، غذائی ماہرین، امدادی گروہوں کی رہنماؤں، مقامی طبی کارکنوں، ویکسین لگانے والے عملے کی ارکان، نرسوں، ڈاکٹروں اور تنظیموں کی سربراہان کی حیثیت میں ان خواتین کا کام جاری رہنا چاہیے۔

ترقیء معکوس

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سربراہ ایکم سٹینر نے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کے اس پیغام کو دہرایا ہے کہ این جی اوز پر پابندی سے افغانستان میں انتہائی غیرمحفوظ لوگوں کو مدد دینے کے کام کو نقصان پہنچے گا۔ ایکم سٹینر نے کہا کہ تازہ ترین پابندی ''افغانستان کو تیزی سے غربت کی جانب واپس لے جائے گی۔''

یو این ڈی پی کے منتظم نے کہا کہ اس نقصان کا ازالہ کرنے میں کئی دہائیاں لگیں گی۔ افغانستان میں ان خواتین کا کام ایک ارب ڈالر سے زیادہ گھریلو آمدنی پیدا کرتا ہے۔

انہوں ںے کہا کہ ''خواتین کو عوامی سطح پر تعلیم اور روزگار کی سرگرمیوں سے روکنے کا نتیجہ لاکھوں غریب افغان گھرانوں کے لیے فوری اور بڑے نقصان کی صورت میں نکلے گا جو پہلے ہی شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔''

خواتین اور لڑکیوں کی امداد کو خطرہ

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ فلیپو گرینڈی نے بھی طالبان کے حکم کی مذمت کی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان میں ان کے ادارے کی 19 شراکت دار این جی اوز کے عملے میں 500 سے زیادہ خواتین کام کر رہی ہیں جو قریباً دس لاکھ خواتین اور لڑکیوں کو خدمات مہیا کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''یہ پابندی اٹھائی جانی چاہیے۔''

انہوں نے مزید کہا کہ ''حالیہ پابندیوں کے باعث یو این ایچ سی آر کو افغان لوگوں خصوصاً خواتین اور بچوں کے لیے جاری اپنی ضروری سرگرمیوں کو عارضی طور پر روکنا پڑے گا۔

تازہ ترین حکم سے مزید خاندان مہاجرین کے طور پر سرحد پار جانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ افغانستان کے تمام 34 صوبوں میں این جی اوز کی خواتین کارکنان ''چار دہائیوں سے جاری جنگ اور مظالم سے متاثرہ لوگوں بشمول لاکھوں مہاجرین اور اندرون ملک بے گھر افراد کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے اگلی صفوں میں کام کر رہی ہیں۔''

فلیپو گرینڈی نے کہا کہ اگست 2021 سے اب تک ادارے کے عملے کی خواتین ارکان نے یو این ایچ سی آر کو 60 لاکھ افغانوں تک رسائی میں مدد دی ہے۔ ''خواتین پر پہلے ہی بہت سی پابندیوں کی موجودگی میں یہ نیا حکم افغانستان کے لوگوں پر تباہ کن اثرات مرتب کرے گا۔''

یو این ایچ سی آر کے مطابق افغانستان میں تقریباً 34 لاکھ لوگ اندرون ملک بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ مزید 29 لاکھ ملک سے باہر پناہ گزینوں کی حیثیت سے مقیم ہیں۔

گردیز کے ایک ہسپتال کے نوزائیدہ بچوں کے وارڈ میں کام کرنے والی ایک نرس۔
© UNICEF/Mihalis Gripiotis
گردیز کے ایک ہسپتال کے نوزائیدہ بچوں کے وارڈ میں کام کرنے والی ایک نرس۔

بنیادی حقوق کو لاحق خدشات

خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی (سی ای ڈی اے ڈبلیو) نے بھی اپنے سخت بیان میں خبردار کیا کہ طالبان کے تازہ ترین حکم کے باعث افغانستان میں بہت سے بنیادی حقوق خطرے میں ہیں۔

مارچ سے افغانستان کے حکمرانوں نے اندازاً 10 لاکھ لڑکیوں کو ہائی سکول میں تعلیم حاصل کرنے سے روک رکھا ہے اور 20 دسمبر کو لڑکیوں کو یہ بتایا گیا کہ اب وہ یونیورسٹی میں نہیں جا سکتیں۔

'سی ای ڈی اے ڈبلیو' کے ماہرین نے کہا کہ خواتین کو این جی اوز میں کام سے روکنے کا یہ تازہ تریں حکم ''ناصرف ان کی اور ان کے خاندانوں کی آمدنی کو ختم کر دے گا بلکہ اس سے ان کی واحد سماجی سرگرمی بھی ختم ہو جائے گی اور وہ ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے موقع سے محروم ہو جائیں گی۔''

جلال آباد میں یو این اچی سی آر کی مدد سے چلنے والے ایک سکول میں رضاکار خاتون پڑھا رہی ہیں۔
© UNHCR/Oxygen Film Studio (AFG
جلال آباد میں یو این اچی سی آر کی مدد سے چلنے والے ایک سکول میں رضاکار خاتون پڑھا رہی ہیں۔

پوری نسل کا نقصان

ادارے کا کہنا ہے کہ ''خواتین کے لیے این جی اوز میں کام کی ممانعت کا مطلب یہ بھی ہے کہ لاکھوں خواتین اور لڑکیاں امداد سے محروم ہو جائیں گی جو ایسے ملک کے لیے بے حد اہمیت رکھتی ہے جہاں تقریباً 60 لاکھ لوگ قحط کے خطرے سے دوچار ہیں۔''

ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ یہ اقدام ''ملک بھر میں ایک نسل کے لیے خطرہ پیدا کر دے گا۔'' انہوں نے یونیورسٹی کی تعلیم پر پابندی کے خلاف احتجاج کے دوران گرفتار ہونے والی خواتین کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔

انہوں نے کہا کہ ''یونیورسٹیوں پر تازہ ترین پابندی سے اب افغانستان اپنی نصف آبادی کو معمول کی تعلیم سے محروم کر رہا ہے جس  سے دنیا میں ایک بہت بڑا صنفی خلا پیدا ہو جائے گا۔''