انسانی کہانیاں عالمی تناظر

طالبان کو خواتین کے ساتھ اپنے سلوک پر نظرثانی کرنی چاہیے: سیما باحوس

یو این ویمن کی سربراہ سیما باحوس کا کہنا ہے کہ طالبان ملک بھر میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو منظم انداز اور وسیع پیمانے پر نشانہ بنا رہے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی (فائل فوٹو)۔
UN Photo/Eskinder Debebe
یو این ویمن کی سربراہ سیما باحوس کا کہنا ہے کہ طالبان ملک بھر میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو منظم انداز اور وسیع پیمانے پر نشانہ بنا رہے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی (فائل فوٹو)۔

طالبان کو خواتین کے ساتھ اپنے سلوک پر نظرثانی کرنی چاہیے: سیما باحوس

خواتین

صنفی مساوات کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ویمن' کی سربراہ سیما باحوس نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں تبدیلی کے لیے وہاں کے حکمرانوں پر دباؤ جاری رکھے۔

ملک میں طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے کو دو سال مکمل ہونے پر ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان میں برسراقتدار طالبان ملک بھر میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو انتہائی جامع اور منظم انداز میں نشانہ بنا رہے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

Tweet URL

صنفی عصبیت 

انہوں نے کہا ہے کہ خواتین کی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جسے طالبان نے اپنے 50 احکامات کے ذریعے نہ چھیڑا ہو اور انہوں نے ان کی کسی آزادی کو برقرار نہیں رکھا۔ طالبان نے خواتین کے خلاف اجتماعی جبر پر مبنی ایک ایسا نظام تخلیق کیا ہے جسے درست اور وسیع طور سے صنفی عصبیت گردانا جاتا ہے۔ 

سیما باحوس نے کہا کہ وہ طالبان پر زور دیتی ہیں کہ وہ اپنے ان فیصلوں پر نظرثانی کریں اور افغانستان کے حال اور مستقبل پر ان اقدامات کے اثرات کا جائزہ لیں۔ 

انہوں نے ملک کی خواتین اور لڑکیوں کے لیے یو این ویمن کی غیرمتزلزل اور ثابت قدم حمایت کو واضح کیا۔ 

افغان خواتین کی ثابت قدمی 

انہوں نے کہا کہ ملک میں ادارے کے کام کی بنیاد خواتین کے ساتھ اس کے بنیادی تعلقات پر ہے جو بتاتی ہیں کہ یہ گمراہ کن، ظالمانہ اور خود شکستگی پر مبنی اقدامات ان کی زندگیوں پر کیسے اثرانداز ہوئے ہیں۔

ان مسائل کے باوجود افغان خواتین نے انہیں یہ بھی بتایا کہ وہ نہ تو شکست تسلیم کریں گی اور نہ ہی ان فیصلوں کو قبول کریں گی۔ وہ خود پر روا رکھے جانے والے جبر کے خلاف جدوجہد کرتی رہیں گی۔ 

انتہائی مخالفانہ حالات میں وہ اپنے حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں، تحفظ زندگی کے لیے خدمات مہیا کرتی ہیں، کاروباری مالکان اور منتظمین کے طور پر کام کرتی ہیں اور خواتین کے ادارے چلاتی ہیں۔ ان کی بہادری کو مزید بڑے پیمانے پر اقدمات کی غرض سے ہمارے لیے باعث تحریک ہونا چاہیے اور ان کی مثال کو دیکھ کر ہمیں اپنے عزم کی تجدید کرنی چاہیے۔

'دباؤ جاری رکھیں' 

سیما باحوس نے افغان خواتین کی بھرپور مدد کے لیے کہا جس میں ان کی آوازوں، ترجیحات اور تجاویز کو نمایاں کرنے سے لے کر انہیں درکار خدمات کے لیے مالی وسائل کی فراہمی اور ان کے کاروباروں اور اداروں کو مدد دینا شامل ہے۔ 

انہوں ںے کہا کہ وہ عالمی برادری پر زور دیتی ہیں کہ وہ افغان خواتین کے لیے تبدیلی لانے کی غرض سے ہرممکن دباؤ ڈالیں اور ہر ذریعے سے کام لیں جس میں امدادی برادری کا مطالبہ پورا کرنے کے اقدامات اور افغانستان کے لیے امداد کی اپیل پر مطلوبہ مالی وسائل کی فراہمی بھی شامل ہے۔ 

انسانی حقوق کی اہمیت 

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے اس موقع پر افغانستان کے حکمرانوں کو خواتین اور لڑکیوں سمیت ملک کے تمام لوگوں کے حقوق برقرار رکھنے کی ذمہ داری یاد دلائی۔ 

انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کا عملہ افغانستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے متعدد موضوعات پر نگرانی، دستاویز کاری اور وکالتی کام کر رہا ہے۔ ان موضوعات میں بنیادی آزادیاں، مسلح تنازعات میں شہریوں کا تحفظ اور قیدیوں کے حقوق بھی شامل ہیں۔ 

جنیوا میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے دفتر 'او ایچ سی ایچ آر' کی ترجمان لِز تھروسیل نے کہا ہے کہ ادارہ ان مسائل پر افغان حکمرانوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے علاوہ اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت انہیں ان کی ذمہ داریاں یاد دلا رہا ہے۔ 

ہائی کمشنر نے عالمی برادری پر زور دیا کہ افغانستان میں رہنے والے لوگوں کی حالت زار کو فراموش نہ کرے۔