انسانی کہانیاں عالمی تناظر

عالمی یوم تعلیم پر مرکز نگاہ افغان لڑکیاں اور خواتین: یونیسکو

وسطیٰ افغانستان کے صوبہ وردک کا ایک سکول۔
© UNICEF/Christine Nesbitt
وسطیٰ افغانستان کے صوبہ وردک کا ایک سکول۔

عالمی یوم تعلیم پر مرکز نگاہ افغان لڑکیاں اور خواتین: یونیسکو

ثقافت اور تعلیم

اقوام متحدہ کے تعلیمی و ثقافتی ادارے 'یونیسکو' نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو تعلیم سے روکنے کے نتیجے میں تعلیمی میدان میں حاصل کردہ بہت بڑے فوائد ضائع ہو سکتے ہیں اور ''ایک گم  شدہ'' نسل سامنے آئے گی۔

یونیسکونے اعلان کیا ہے کہ وہ 24 جنوری کو تعلیم کے عالمی دن کو افغانستان کی خواتین اور لڑکیوں کے نام کر رہا ہے۔

ادارے کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے آزولے نے کہا ہے کہ ''دنیا میں کسی ملک کو اپنی خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم کے حصول سے روکنا نہیں چاہیے۔ تعلیم ایک عالمگیر انسانی حق ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے۔''

انہوں نے مزید کہا کہ ''عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی تاخیر کے بغیر افغان لڑکیوں اور خواتین کے حقوق بحال کرے۔ خواتین کے خلاف جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔''

''گمشدہ نسل''

گزشتہ مہینے افغانستان کے موجودہ طالبان حکمران نے نوجوان لڑکیوں کو یونیورسٹی جانے سے روک دیا تھا۔

اس سے قبل ایک حکم نامے میں لڑکیوں  کو ثانوی سکول کی تعلیم سے روکا گیا تھا۔ یہ حکم 1990 کی دہائی کے آخر سے 2021 تک ملک پر حکومت کرنے والے اس بنیاد پرست گروہ کی جانب سے اگست 2021 میں کابل میں واپس آ کر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے سے چند ہفتوں کے بعد جاری کیا گیا تھا۔

اس طرح افغانستان دنیا کا واحد  ملک بن گیا ہے جہاں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی معطل ہے۔

یونیسکو کا کہنا ہے کہ ''ملک میں گمشدہ نسل پیدا ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ اس کی ترقی کے لیے تعلیم یافتہ خواتین کا ہونا ضروری ہے۔

افغانستان یا کوئی اور ملک اپنی نصف آبادی کو تعلیم کے حصول اور شہری زندگی میں حصہ لینے سے روک کر ترقی نہیں کر سکتا۔

ہلمند میں یونسیف کی مدد سے چلنے والے ایک سکول کی طالبات (فائل فوٹو)۔
© UNICEF/Mark Naftalin
ہلمند میں یونسیف کی مدد سے چلنے والے ایک سکول کی طالبات (فائل فوٹو)۔

فوائد اور نقصانات

2001 اور 2018 کے درمیان افغانستان میں ہر طرح کے تعلیمی درجوں میں طلبہ کی تعداد دس گنا بڑھ کر اندازاً ایک ملین سے 10 ملین تک پہنچ گئی تھی

پرائمری سکولوں میں زیرتعلیم لڑکیوں کی تعداد تقریباً صفر سے بڑھ کر 2.5 ملین ہو گئی۔ اگست 2021 تک پرائمری سکول کے ہر 10 طلبہ میں لڑکیوں کی تعداد چار تھی۔

اعلیٰ تعلیمی درجوں میں بھی خواتین کی موجودگی میں تقریباً 20 گنا اضافہ ہوا۔ 2001 میں ایسے طلبہ کی تعداد 5,000 تھی جو دو دہائیوں کے بعد ایک لاکھ تک جا پہنچی۔

آج سکول جانے کی عمر کی 80 فیصد افغان لڑکیاں اور خواتین حصول تعلیم کے موقع سے محروم ہیں جن کی تعداد 2.5 ملین ہے۔ دسمبر میں خواتین کو یونیورسٹی کی تعلیم سے روکے جانے کا حکم آیا جس سے سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم ایک لاکھ سے زیادہ خواتین متاثر ہوئیں۔

بنیادی حق

یونیسکو افغانستان میں تعلیم تک فوری اور غیرمشروط رسائی اور تمام لڑکیوں اور نوجوان خواتین کی تعلیمی اداروں میں واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ ''ہر ایک کو حصول تعلیم کا حق ہے۔ ہر ایک کو۔ تاہم افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کو اس بنیادی حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔''

افغانستان دنیا کا واحد  ملک ہے جہاں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی معطل ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں میں یونیسکو نے افغانستان کے تعلیمی نظام کو مدد فراہم کی جس میں خواندگی کا ایک پروگرام بھی شامل تھا جس نے 600,000 سے زیادہ نوجوانوں اور بالغوں تک رسائی حاصل کی جن میں خواتین کی تعداد 60 فیصد تھی۔

طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یونیسکو نے اپنی سرگرمیاں 20 صوبوں میں 25,000 سے زیادہ نوجوانوں اور بالغوں کے لیے کمیونٹی کی بنیاد پر خواندگی اور صلاحیتوں میں اضافے کی کلاسوں کی جانب منتقل کر دی ہیں۔

یونیسکو ایک ایسے اقدام پر بھی کام کر رہا ہے جس کا مقصد تعلیم سے متعلق قابل اعتبار معلومات کا حصول یقینی بنانا ہے تاکہ اس کے شراکت دار وسائل کا رخ باقی ماندہ انتہائی اہم ضروریات کی تکمیل کی جانب موڑ سکیں۔