افغانستان: خواتین پر اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے پر پابندی کی مذمت
افغان خواتین پر اقوام متحدہ کے مشن اور دوسرے اداروں کے لیے کام کرنے پر پابندی کے طالبان کے حکم نامے کی اقوام متحدہ کے سربراہ، ان کی نائب، اور دوسرے کئی اعلیٰ عہدیداروں نے شدید مذمت کی ہے۔
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے اپنے بیانات میں افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں پر جبر میں مسلسل اضافے کو ان کے نہ جھٹلائے جانے والے بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
اپنے ترجمان کے ذریعے جاری کیے گئے اپنے بیان میں انتونیو گوتیرش نے کہا کہ یہ پابندیاں بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت افغانستان کی ذمہ داریوں کی بھی خلاف ورزی ہیں اور یہ عدم تفریق کے اس اصول کی بھی خلاف ورزی ہے جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔
اگست 2021 میں افغانستان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے طالبان حکمرانوں نے عوامی زندگی میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو مستقل طور پر سلب کیا ہے، ثانوی تعلیم، اعلیٰ تعلیم، غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنے، اور آزادی کے ان کے حقوق پر پابندی لگا دی ہے۔ اسی طرح خواتین کو مرد محرم کے بغیر کام پر جانے اور سفر کرنے کی بھی اجازت نہیں۔
ضرروی خدمات
اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ خواتین عملہ اقوام متحدہ کی تمام کارروائیوں میں اہم حیثیت کا حامل ہے، ان میں افغانستان میں اقوام متحدہ کا مشن ’یونیما‘ بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین پر اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے پر پابندی کے فیصلے سے افغان عوام کو نقصان پہنچے گا جنہیں امداد کی اشد ضرورت ہے۔
سیکرٹری جنرل نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فیصلے کو فوری طور پر منسوخ کریں اور ان تمام اقدامات کو واپس لیں جو خواتین اور لڑکیوں کے کام، تعلیم اور نقل و حرکت کی آزادی پر قدغن کا موجب ہیں۔
بدھ کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں پائیدار ترقی کی رپورٹ کی بریفنگ سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے بتایا کہ انہوں نے افغانستان کے اپنے حالیہ دورے کے دوران بہت سی ایسی خواتین سے ملاقات کی جن کو پابندیوں کی وجہ سے روزگار کے مسائل اور مالی مشکلات کا سامنا ہے۔
خواتین عملے کے ساتھ یکجہتی
انہوں نے کہا کہ افغان خواتین اور مرد دونوں اقوام متحدہ کے امدادی کاموں کے تمام پہلوؤں میں اہمیت کے حامل ہیں اور اس مشکل وقت میں افغانستان میں خواتین عملے کی مدد کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
امینہ محمد نے بتایا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی خواتین کو تنخواہیں ملتی رہیں گی لیکن جب تک صورتحال واضح نہیں ہوتی مردوں سمیت تمام عملے سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے دفاتر میں حاضری نہ دیں۔
اقوام متحدہ کی نائب سربراہ نے مزید بتایا کہ وہ بدھ کی صبح طالبان کے وزیر خارجہ کے ساتھ ایک اجلاس میں شامل تھیں جس میں انہوں نے یہ واضع کیا کہ اقوام متحدہ کی قیادت تازہ ترین انسانی مسئلے کو حل کرنے کے لیے طالبان کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی رابطے میں رہے گی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر سابا کوروشی اور انسانی حقوق کے اعلیٰ ترین عہدیدار وولکر ترک نے بھی طالبان حکام کی طرف سے خواتین کے حقوق کو سلب کیے جانے کے نا ختم ہونے والے سلسلے کی بھرپور مذمت کی ہے۔