انسانی کہانیاں عالمی تناظر

طالبان نے خواتین کو اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے سے منع کر دیا

قندھار میں پولیو کے خلاف مہم کے دوران ہیلتھ ورکر بچوں کو ویکسین لگا رہی ہیں۔
© UNICEF/Frank Dejongh
قندھار میں پولیو کے خلاف مہم کے دوران ہیلتھ ورکر بچوں کو ویکسین لگا رہی ہیں۔

طالبان نے خواتین کو اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے سے منع کر دیا

خواتین

اقوام متحدہ کے ترجمان نے بتایا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکام نے اقوام متحدہ کے عملے کی مقامی خواتین ارکان کے کام کرنے پر پابندی کا حکم جاری کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں معمول کی روزانہ بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ ''افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (یو این اے ایم اے) کے لیے کام کرنے والے ہمارے ساتھیوں کو ملک کے موجودہ حکام کی جانب سے ایک حکم موصول ہوا ہے جس میں اقوام متحدہ کے عملے میں شامل افغان خواتین کو کام سے روک دیا گیا ہے۔''

Tweet URL

انہوں نے کہا کہ ''ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ اس اقدام سے ملک میں ہماری کارروائیاں کیسے متاثر ہوں گی۔ ہمیں کل کابل میں حکام کے ساتھ مزید ملاقاتوں کی توقع ہے جس میں ہم ان سے اس بارے میں وضاحت لینے کی کوشش کریں گے۔''

اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد اقوام متحدہ نے ملک میں اپنی موجودگی برقرار رکھی اور دنیا سے یکجا ہو کر افغان عوام کی مدد کے لیے کہا۔

طالبان حکام کے ساتھ ابتدا میں قدرے تعمیری بات چیت کے باوجود گزشتہ برس ملک کی بنیاد پرست قیادت کی جانب سے لیے گئے فیصلوں میں خواتین کے اعلیٰ تعلیم کے حصول، این جی اوز کے لیے کام کرنے اور بہت سے عوامی مقامات پر جانے پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔

پابندی 'ناقابل قبول' ہے: گوتیرش

صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ڈوجیرک نے بتایا کہ طالبان کی قیادت کی جانب سے جاری کردہ سرکاری اطلاع سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حکم کا اطلاق پورے ملک پر ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ''ہم امید کرتے ہیں کہ ہمیں سلامتی کونسل کی جانب سے اس بارے میں مضبوط موقف سننے کو ملے گا کہ اقوام متحدہ کے مشن کونسل کے اختیار کے تحت کام کرتے ہیں۔''

سیکرٹری جنرل کے مطابق ایسی کوئی پابندی ناقابل قبول اور ناقابل تصور ہو گی۔

خواتین پر مشتمل عملہ 'ضروری' ہے

ترجمان نے کہا کہ خاص طور پر اقوام متحدہ کے عملے سے متعلق یہ فیصلہ امدادی اداروں کی انتہائی ضرورت مند لوگوں تک رسائی کی اہلیت کو کمزور کرنے والے حکم ناموں کے پریشان کن رحجان میں تازہ ترین اقدام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''اگرچہ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن بدقسمتی سے کہنا پڑ رہا ہے کہ خواتین پر مشتمل عملہ تحفظ زندگی کے لیے مدد پہنچانے کی غرض سے اقوام متحدہ کے کام کا لازمی حصہ ہے۔

ایسے احکامات خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور عدم امتیاز کے اصول کی پامالی ہیں۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے خواتین پر مشتمل عملہ لازمی اہمیت رکھتا ہے۔''

امدادی سرگرمیوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے اوچا کی خواتین اہلکار مشرقی صوبے ننگرہار میں گھر بار چھوڑنے پر مجبور ایک خاندان کے ساتھ
© UNOCHA/Charlotte Cans
امدادی سرگرمیوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے اوچا کی خواتین اہلکار مشرقی صوبے ننگرہار میں گھر بار چھوڑنے پر مجبور ایک خاندان کے ساتھ

'ہرممکن اقدامات'

انہوں نے کہا کہ ''اقوام متحدہ افغانستان کی 40 ملین آبادی میں سے 23 ملین مردوخواتین اور بچوں کو انسانی امداد پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔

ہم یہ یقینی بنانے کے لیے ہر طریقے سے کام لیتے رہیں گے کہ انتہائی کمزور لوگوں خصوصاً خواتین اور بچوں تک پہنچا جا سکے۔''

خواتین کے لیے 'جابر ترین' ملک

مارچ میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ اور 'یو این اے ایم اے' کے امدادی مشن کی سربراہ روزا ایساکوونا اوٹنبائیوا نے سلامتی کونسل کو بتایا تھا کہ طالبان کی حکومت میں افغانستان ''دنیا میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے جابر ترین ملک'' ہے

کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ''ایسے وقت میں جب ملک کو دہائیوں پر مشتمل جنگ سے بحال ہونے کے لیے اپنے تمام انسانی سرمایے کی ضرورت ہے تو اس کے مستقبل کے نصف ڈاکٹروں، سائنس دانوں، صحافیوں اور سیاست دانوں کو ان کے گھروں میں بند کر دیا گیا ہے، ان کے خواب کچل دیے گئے ہیں اور ان کی صلاحیتیں سلب کر لی گئی ہیں۔