انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ماؤں کا بچوں کو دودھ پلانا ہر جگہ ممکن ہونا چاہیے: یو این ادارے

گوئٹے مالا میں ایک ماں اپنی بچی کو دودھ پلا رہی ہے۔ جو بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے وہ عام متعدی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کی قوت مدافعت بھی بڑھ جاتی ہے۔
© UNICEF/Patricia Willocq
گوئٹے مالا میں ایک ماں اپنی بچی کو دودھ پلا رہی ہے۔ جو بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے وہ عام متعدی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کی قوت مدافعت بھی بڑھ جاتی ہے۔

ماؤں کا بچوں کو دودھ پلانا ہر جگہ ممکن ہونا چاہیے: یو این ادارے

صحت

عالمی صحت اور بچوں کی فلاح پر کام کرنے والے اقوام متحدہ کے اداروں  نے منگل سے ورلڈ بریسٹ فیڈنگ ویک (ماں کا دودھ پلانے کا عالمی ہفتہ)  کا آغاز کیا ہے جس میں روزگار کی تمام جگہوں و دفاتر کو اس قابل بنانے پر زور دیا جائے گا کہ خواتیں کارکنوں کو اپنے بچوں کو دودھ پلانے میں کوئی دقت نہ ہو۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے مطابق گزشتہ 10 سال کے دوران بہت سے ممالک میں چھوٹے بچوں کو ماؤں کا دودھ پلائے جانے کی شرح میں نمایاں بہتری آئی ہے، تاہم خاص طور پر کام کی جگہوں پر ماؤں کے لیے اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلانے کے لیےسہولت مہیا کی جائے تو اس سے کہیں بڑی پیش رفت ممکن ہے۔

Tweet URL

ڈبلیو ایچ او اور یونیسف کا کہنا ہے کہ ماؤں کا دودھ پینے والے چھوٹے بچوں کی تعداد 10 فیصد اضافے کے ساتھ اب 48 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

آئیوری کوسٹ، جزائر مارشل، فلپائن، صومالیہ اور ویت نام جیسے متنوع ممالک میں ماؤں کا دودھ پینے والے بچوں کی تعداد میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہےکہ اگر ماؤں کے لیے اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلانے کا عمل محفوظ بنایا جائے، اسے فروغ دیا جائے اور اس میں انہیں مدد فراہم کی جائے تو اس محاذ پر مزید بہتری لانا ممکن ہے۔

ماں، بچے اور آجر سب کے لیے فائدہ مند

دونوں اداروں کا کہنا ہے کہ  2030 تک دنیا بھر میں ماؤں کا دودھ پینے والے بچوں کی تعداد 70 فیصد تک لے جانے کے لیے خواتین اور خاندانوں کو ایسے اہداف کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے نجات دلانا ہو گی اور اس معاملے میں کام کی جگہوں پر سازگار ماحول کی فراہمی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔

شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب خواتین بچے کی پیدائش کے بعد کام پر واپس جاتی ہیں تو بچوں کو ماؤں کا دودھ پلائے جانے کی شرح میں نمایاں کمی آتی ہے تاہم جب کام کی جگہوں پر ماؤں کو ایسا ماحول مہیا کیا جائے جس میں ان کے لیے اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلانا آسان ہو تو یہ منفی اثر زائل کیا جا سکتا ہے۔ 

کام کی جگہوں پر خاندان دوست پالیسیاں، جیسا کہ تنخواہ کے ساتھ زچگی کی چھٹیاں، ماؤں کو اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلانے کے لیے کام میں وقفہ مہیا کرنا اور کام کی جگہوں پر اس مقصد کے لیے علیحدہ کمرے کی موجودگی سے ایسا ماحول تخلیق پاتا ہے جس سے ناصرف کام کرنے والی خواتین اور ان کے اہلخانہ بلکہ آجروں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں سے معاشی فوائد حاصل ہوتے ہیں کیونکہ اس طرح زچگی سے متعلقہ غیرحاضریاں کم ہو جاتی ہیں، خواتین کارکن ملازمت نہیں چھوڑتیں اور نئے عملے کی بھرتی اور اسے تربیت دینے پر اٹھنے والے اخراجات کی بچت ہوتی ہے۔

نشوونما و مدافعت دونوں میں مددگار

ڈبلیو ایچ او اور یونیسف نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ بچے کی بقا اور بڑھوتری میں اسے زندگی کے ابتدائی ترین لمحات سے ہی ماں کا دودھ میسر آنے کا اہم کردار ہوتا ہے، جو بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے وہ عام متعدی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے، اس کی قوت مدافعت بڑھ جاتی ہے اور اسے بڑھوتری اور اپنی پوری صلاحیت کے مطابق جسمانی ترقی کے لیے درکار اہم غذائی اجزا میسر آتے ہیں۔ ’جن بچوں کو ماؤں کا دودھ نہیں ملتا ان کے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے موت کے منہ میں جانے کا خدشہ ماں کا دودھ پینے والے بچوں کے مقابلے میں 14 گنا زیادہ ہوتا ہے۔‘

کام کی جگہوں پر بچوں کو اپنا دودھ پلانے میں سہولت دینا ماؤں، بچوں اور کاروباروں سبھی کے لیے فائدہ مند ہے اور اسی لیے یونیسف اور ڈبلیو ایچ او حکومتوں، عطیہ دہندگان، سول سوسائٹی اور نجی شعبے سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اس معاملے میں اپنی کوششوں میں اضافہ کریں تاکہ: 

  • غیررسمی شعبے میں یا عارضی بنیادوں پر کام کرنے والی خواتین سمیت تمام ماؤں کے لیے اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلانے کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جا سکے۔ اس حوالے سے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے کام کے دوران باقاعدہ وقفوں کی فراہمی اور ماؤں کو بچے کی پیدائش کے بعد دوبارہ کام شروع کرنے پر اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلانے کی سہولت دینا شامل ہے۔ 
  • کام کرنے والے تمام والدین اور بچوں کی نگہداشت کرنے والے لوگوں کو اجرت کے ساتھ مناسب تعداد میں چھٹیاں دی جائیں تاکہ وہ اپنے چھوٹے بچوں کی ضروریات پوری کر سکیں۔ اس میں اجرت کے ساتھ کم از کم 18 ہفتوں کے لیے زچگی کی چھٹیاں اور بچے کے پیدائش کے بعد ترجیحی طور پر چھ ماہ یا اس سے زیادہ عرصہ کے لیے چھٹیاں شامل ہیں۔ 
  • کام کی جگہوں پر ماؤں کے لیے اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلانے میں سہولت مہیا کرنے سے متعلق پالیسیوں اور پروگراموں میں مددگار سرمایہ کاری بڑھائی جائے۔ اس میں ایک قومی پالیسی اور پروگرام بھی شامل ہے جو کام کی جگہوں پر اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلانے والی خواتین کے لیے سرکای و نجی شعبے کی فراہم کردہ سہولت کو باضابطہ بنائے اور اسے فروغ دے۔