انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ہر دو منٹ میں ایک خاتون حمل یا زچگی کے دوران فوت ہو جاتی ہے

ہیلتھ ورکر گوئٹے مالا میں ایک حاملہ خاتون کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔
© UNICEF/Patricia Willocq
ہیلتھ ورکر گوئٹے مالا میں ایک حاملہ خاتون کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔

ہر دو منٹ میں ایک خاتون حمل یا زچگی کے دوران فوت ہو جاتی ہے

صحت

اقوام متحدہ کے اداروں نے کہا ہے کہ دنیا کے کئی حصوں میں زچگی کے دوران سامنے آنے والے صحت کے مسائل ہر دو منٹ کے بعد حمل یا بچے کی پیدائش کے موقع پر ایک خاتون کی جان لے لیتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق قریباً ہر جگہ زچہ کی اموات میں یا تو اضافہ ہوا ہے یا ان کی شرح برقرار ہے۔ 2020 میں پیدائش کے ہر ایک لاکھ مواقع پر 223 خواتین کی موت ہوئی۔ 2015 میں یہ تعداد 227اور 2000 میں 339 تھی۔

Tweet URL

ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ زچگی کی بیشتر اموات کی روک تھام ممکن ہے اور ان میں کمی لانے کے عالمگیر اہداف کی جانب پیش رفت کیے بغیر 2030 تک دس لاکھ سے زیادہ خواتین کی زندگیاں خطرے میں ہوں گی۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ ''افسوسناک طور سے حمل اب بھی دنیا بھر کی ایسی لاکھوں خواتین کے لیے ایک خوفناک تجربہ ہے جنہیں معیاری اور باوقار طبی نگہداشت تک رسائی نہیں ہے۔''

انہوں ںے بہت سے خطوں میں طبی خدمات تک رسائی میں کھلی نابرابریوں پر روشنی ڈالی اور یہ یقینی بنانے کی فوری ضرورت کو واضح کیا کہ ''پیدائش سے پہلے، اس کے دوران اور بعد میں ہر خاتون اور لڑکی کو ضروری طبی خدمات تک رسائی ہونی چاہیے اور انہیں اپنے تولیدی حقوق سے پوری طرح کام لینے کے قابل ہونا چاہیے۔''

ابتدائی کامیابیاں

ڈبلیو ایچ او کی جاری کردہ رپورٹ 'زچگی میں اموات کے رحجانات' 2000 سے 2020 کے درمیانی عرصہ میں ملکی، علاقائی اور عالمی سطح پر زچہ کی اموات کی تفصیل بتاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2020 میں دنیا بھر میں زچگی کے دوران 287,000 خواتین کی موت واقع ہوئی جو 2016 کے مقابلے میں کچھ ہی کم ہے جب 309,000 اموات ریکارڈ کی گئی تھیں۔

2015 میں ممالک کی جانب سے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) پر عملدرآمد کے وعدوں کے باوجود یہ اموات کی بہت بڑی تعداد ہے۔ ایسی ڈی جی میں 2030 تک بچے کی پیدائش کے ہر ایک لاکھ مواقع پر زچہ کی اموات کی تعداد کو 70 سے نیچے لانے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔

اگرچہ اس رپورٹ میں 2000 اور 2015 کے درمیانی عرصہ میں زچگی کی اموات میں کمی لانے کے حوالے سے ''بعض اہم کامیابیوں'' کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے تاہم رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ایسی بیشتر کامیابیوں کا سلسلہ آگے نہیں بڑھایا جا سکا اور بعض مواقع پر پہلے سے بھی زیادہ خراب صورتحال دیکھنے کو ملی ہے۔

اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر نتالیہ کینم نے اس رپورٹ کے نتائج پر ردعمل دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ''بہت سی خواتین حمل اور بچے کی پیدائش کے دوران ایسی وجوہات کی بنا پر موت کا شکار ہو جاتی ہیں جن کا تدارک باآسانی ممکن ہے ۔ ایک ہی سال میں ایسی 280,000 سے زیادہ اموات ناقابل جواز ہیں۔''

ڈاکٹر کینم نے کہا کہ ''ہم خاندانی منصوبہ بندی میں فوری سرمایہ کاری اور دنیا بھر میں  900,000دائیوں کی کمی کو پورا کرکے اس صورتحال میں بہتری لا سکتے ہیں اور ہمیں لانا چاہیے تاکہ ہر خاتون کو زندگی کے تحفظ کے لیے درکار مدد مل سکے۔ ہمارے پاس زچگی کی قابل انسداد اموات کو روکنے کے لیے علم اور وسائل موجود ہیں، ہمیں اس کے لیے اب صرف سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔''

ہیٹی میں زچہ و بچہ مراکز تقریباً بند پڑے ہیں۔
© WHO/PAHO
ہیٹی میں زچہ و بچہ مراکز تقریباً بند پڑے ہیں۔

جنگ اور غربت: ایک مہلک مجموعہ

اس رپورٹ کے اہم نتائج میں یہ بھی شامل ہے کہ زچگی کی اموات کی بڑی تعداد دنیا کے غریب ترین اور جنگ سے متاثرہ ممالک میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

2020 میں زچگی کی تقریباً 70 فیصد اموات ذیلی صحارا افریقہ میں ہوئیں۔ شدید انسانی بحرانوں کا سامنا کرنے والے نو ممالک میں زچگی کے دوران اموات کی شرح دنیا کی مجموعی اوسط سے دو گنا زیادہ تھی۔ (عالمی سطح پر پیدائش کے ہر ایک لاکھ مواقع پر زچہ کی اموات کی اوسط تعداد 223 ہے جبکہ ان ممالک میں یہ تعداد 551 رہی)

زچگی کے دوران اموات کی بڑی وجوہات میں زیادہ مقدار میں خون بہنا، بلند فشار خون، حمل سے متعلقہ زخم، غیرمحفوظ اسقاط حمل سے جنم لینے والی پیچیدگیاں اور حمل کے نتیجے میں شدت اختیار کر جانے والی ایچ آئی وی/ایڈز اور ملیریا جیسی بیماریاں شامل ہیں۔

یہ رپورٹ ڈبلیو ایچ او نے زچہ کی اموات سے متعلق تخمینہ کاری کرنے والے اقوام متحدہ کے بین الاداری گروپ کی جانب سے تیار کی ہے جس میں ڈبلیو ایچ او، یونیسف، یو این ایف پی اے، دی ورلڈ بینک گروپ اور اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی امور کے شعبے کا پاپولیشن ڈویژن شامل ہیں۔